سوموار 5 اگست 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ایسی بحث کا آغاز ہوا جس کا تعلق ایک نظریاتی اسلامی مملکت کی اساس کے ساتھ تھا۔ دُنیا میں اب تک تین اقسام کی جدید نظریاتی قومی ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ پہلی ریاست سوویت یونین تھی جو کیمونسٹ نظریے کی بنیاد پر 1917ء میں قائم ہوئی۔ دوسری پاکستان، جو 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ وطن اور اسلامی ریاست کے قیام کے لئے معرض وجود میں آئی اور تیسری ریاست اسرائیل ہے جو 14 مئی 1948ء کو مغربی قوتوں کی مدد سے دُنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر آباد کرنے کے بعد قائم کی گئی۔ ان تینوں ریاستوں کے وجود، ان کی اساس اور نظریاتی بقا کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے ممبران کی تعریف اور شناخت کو کسی بھی قسم کی اُلجھن، خامی یا بے یقینی سے پاک کریں۔ سوویت یونین کے قیام کے فوراً بعد ہی ولادی میر لینن نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا کہ کیمونسٹ کون ہوتا ہے، کیسا ہوتا ہے اور کیسے نظریات کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کینسٹ "Knesset" سے چودہ مئی کو خطاب کیا تو تمام یہودیوں کے ذہنوں میں ایک خالص اور پکے یہودی کی تعریف بالکل واضح تھی اور پوری صہیونی تحریک اس تعریف پر متفق بھی تھی۔ کینسٹ کے ممبران کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اپنے آخری نبی ملاچی (Malachi) تک اڑتالیس پیغمبروں تک ہر کسی کے بارے میں تفصیل بھی معلوم تھی اور آخرالزمان یعنی (End time) میں آنے والے اپنے مسیحا (Mashiach) کے بارے میں بھی مکمل معلومات تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہودیوں میں کوئی ’’ظلّی‘‘، ’’بروزی‘‘ یا کوئی اور بہروپیا نبوت کا دعویٰ لے کر پیدا نہیں ہو سکا۔ لاکھوں عیسائی راہب آئے، لیکن کسی نے بھی ایک یہودی نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔ اسرائیلی ریاست میں تو اس طرح کا تصور کرنا ہی ایک سنگین جرم ہے۔ اس قدر احتیاط کی گئی کہ اسرائیل جو کہ دُنیا کا واحد ملک ہے جس نے چوہتر سال گزرنے کے باوجود بھی، سیکولر، لبرل عالمی قوتوں کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے لئے آئین نہیں بنایا۔ اسرائیل کا آئین ’’تورات‘‘ اور ’’تالمود‘‘ ہیں۔ اسی لئے اس نظریاتی مذہبی ریاست اسرائیل میں یہودیت کی جو تعریف یہ الہامی کتابیں کرتی ہیں، وہی نافذالعمل ہے۔ تیسری ریاست پاکستان ہے جس کی نظریاتی اساس اسلام ہے، اس ریاست کے لئے قیام کے دن سے ہی یہ ضروری تھا کہ ایک مسلمان کی جامع تعریف بھی کر دی جائے۔ تعریف کے دو قانونی یا آئینی تقاضے ہوتے ہیں، ایک کو عمومی تقاضہ یعنی "General Clause" کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت یہ بتایا جاتا ہے کہ کون کون لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن اگر کہیں معاملہ اُلجھ جائے اور بات کو مزید واضح کرنا مقصود ہو تو پھر ’’اخراج‘‘ یعنی "Exclusion Clause" کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس قانونی طریقے کے تحت یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں شخص ان وجوہات کی بنیاد پر اس گروہ یعنی مسلمانوں میں شامل نہیں ہے۔ دُنیا کے پہلے تحریری آئین ’’میثاق ِ مدینہ‘‘ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اخراج کی شق "Exclusion Clause" رکھی تھی جس کے تحت ہر اس شخص کو ریاستِ مدینہ کی ذمہ داری سے خارج کیا گیا تھا جو دیگر بیرونی قبیلوں سے معاہدات کرے۔ قیامِ پاکستان سے بہت عرصہ پہلے سے یہ بحث ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی کہ چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ ٔ نبوت کے بعد پوری اُمتِ مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ اسلام اور مسلمان کی جو تعریف چودہ سو سال سے موجود ہے اس کے تحت ’’نئے نبی‘‘ کی ذریت کو اسلام سے خارج (Exclude) قرار دیا جائے۔ علامہ اقبالؒ کا حکومت کو اس سلسلے میں تحریر کردہ خط واضح ہے جس میں انہوں نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دینے کے لئے لکھا تھا۔ کوئی عیسائی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر ماننے کے بعد دُنیا کو یہ کہہ کر بے وقوف نہیں بنا سکتا کہ چونکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتا ہے اس لئے وہ دراصل یہودی ہے اور اسے یہودیوں کی طرح عبادت گاہ (Synagogue) بنانے کا حق حاصل ہے اور اسے دیوار گریہ (Wailing wall) پر یہودیوں کی طرح عبادت کرنے کا بھی اختیار ملنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص، اگر وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا کلمہ پڑھتا ہے تو عیسائیت ایسے تمام مسلمانوں کو اپنے مذہب سے خارج سمجھتی ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی دوسرے نبی کا کلمہ پڑھنے والا عیسائی نہیں کہلا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی ایک بھی ایسا دعویدار نبوت، عیسائیت میں پیدا نہ ہو سکا جو پہلے نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور پھر ساتھ ساتھ ویٹیکن سٹی کے پوپ کے تخت پر متمکن ہونے کا بھی خواہش مند ہو۔ یہ صورتِ حال صرف اور صرف مسلم اُمّہ اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں پیش آئی جہاں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ ساتھ اس بات کا بھی اعلان کیا کہ وہ اور اس کے ماننے والے مسلمان بھی ہیں اور ویسی ہی مسجدیں بنانے اور عبادات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ تھی وہ جعل سازی (Counterfeit) جس پر پوری اُمت اکٹھی ہو گئی تھی۔ ایک نظریاتی ریاست کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس جعل سازی کی روک تھام کے لئے یہ طے کرے کہ اس کے نظریاتی ممبرانِ ریاست کی تعریف کیا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک سیکولر ریاست نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست ہے، اس لئے اس کے بنیادی ڈھانچے کی یہ اہم ضرورت ہے کہ کون ہے وہ جو مسلمان ہے اور کون ہے کہ جو دائرہ اسلام سے خارج۔ تخلیقِ پاکستان بھی جداگانہ طرزِ انتخاب (یعنی مسلمانوں کا علیحدہ ووٹ) کی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ قادیانی اسلام کے نام کو استعمال کر کے جو جعل سازی کر رہے تھے اس کے خلاف جاری جدوجہد کی کامیابی کی منزل 7 ستمبر 1974ء تھی جب آئینِ پاکستان نے یہ طے کر دیا کہ قادیانی ایک اسلامی ریاست کے نزدیک مسلمان نہیں ہو سکتا۔ تحریکِ ختم نبوت یوں تو گذشتہ پچاس سالوں سے چل رہی تھی لیکن 29 مئی 1974ء کو ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر جب اسلامی جمعیت طلبہ کے تیس طلبہ کو قادیانیوں نے مار کر شدید زخمی کیا تو ردّعمل کے طور پر پورے ملک میں ایک جاندار تحریک کا آغاز ہوا۔ پورا ملک اس بات پر متفق تھا کہ کئی سال پرانا یہ جھگڑا اب ختم ہو جانا چاہئے۔ اس ملک کو ایک اسلامی آئین ملا ہے، اب اس کے تحت مسلمان کی تعریف بھی بہت ضروری ہو چکی ہے۔ تحریک کے آخری مرحلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس موجودہ سٹیٹ بینک کی عمارت میں صاحبزادہ فاروق علی خان سپیکر کی صدارت میں 5 اگست کو شروع ہوا۔ قادیانیوں کی طرف سے مرزا ناصر احمد کو اپنا موقف اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بیان کرنے کے لئے بلایا گیا۔ ایک ماہ تک یہ بحث چلی جو 866 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، عبدالمصطفیٰ الازہری اور دیگر صاحبانِ علم موجود تھے جنہوں نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ایک ماہ کی طویل بحث کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ایک سوال نے اس سارے معاملے کو ایک ہی لمحے میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ یحییٰ بختیار نے 28 اگست کو مرزا ناصر احمد سے سوال کیا کہ ’’وہ مسلمان جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں‘‘، مرزا ناصر احمد نے جیسے ہی یہ جواب دیا کہ ’’وہ ہمارے نزدیک کافر ہیں‘‘، تو بحث وہیں ختم ہو گئی اور 7 ستمبر 1974ء کو آئینِ پاکستان میں دوسری ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت قادیانی ’’غیر مسلم اقلیت‘‘ قرار دیئے گئے۔ یہ کسی بھی اسلامی نظریاتی ریاست کے لئے بہت ضروری تھا۔ نظریاتی ریاست میں جعل سازوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔