الیکشن جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کا جلد یا بدیر ہونا سیاسی اور حکومتی عدم استحکام کی نشاندہی ہے جبکہ چند دن کی دیر سویر انتظامی سہولت کے تحت ہو سکتی ہے،ماضی میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔پاکستان کا جمہوری نظام مغربی ہے۔تحریک پاکستان نے مغربی نظام جمہوری کو رد کیا اور نظام اسلام کے نفاذ کے لئے حصول پاکستان کو ممکن بنایا بدقسمتی سے آج پاکستان کی مقتدر اشرافیہ مغربی شہریت کی حامل بھی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خاں بضد ہیں کہ فوری الیکشن کر ائے جائیں، پی ٹی آئی ارکان نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا بعدازاں پنجاب اسمبلی میںق لیگ پنجاب کے سربراہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جب چودھری پرویز الٰہی ق لیگ اور پی ٹی آئی کے متحدہ نمائندہ وزیر اعلیٰ بن گئے تو پی ٹی آئی نے فوری الیکشن کرانے کے لئے مزید دبائو ڈالتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی پارلیمان تحلیل کر دیں۔ اسمبلی چھوڑنے کے بعد ان کا موقف تھا کہ انہیں امریکہ نے نکالا ہے او ر مجھے نکال کر پاکستان میں امپورٹڈ حکومت مسلط کی ،جنہوں نے اپنے کیسز کوختم کروانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا ۔انھوں نے مزید کہا: میری ساری سیاسی توانائی پاکستان کو امریکی غلامی سے نکال کر حقیقی آزادی دلانا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خاں کو اقتدار میں لانے کے لئے عوام نے بھرپور ان کا ساتھ دیا تھا ۔ بعد ازاں امریکہ اینڈ کمپنی نے شادیانے بجائے اور کہا کہ عمران خاں صدر ٹرمپ کے دوست ہیں ۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کو خود مختار بنا کر جملہ انتظامی امور براہ راست امریکی ذیلی ادارے عالمی مالیاتی فنڈ IMFکے حوالے کر دیا گیا تھا۔مہنگائی میں اضافہ ہوا ۔لیکن موجودہ حکومت تو اس سے بھی آگے نکل گئی ،جس نے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے ۔ امریکہ اینڈ کمپنی کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی سیاست میں دائیں بازو کے کردار کو ذیلی شراکت میں ضم کر دیا جائے۔جنرل باجوہ نے عمران خاں کی معزولی میں پس منظر میں لاہور کے ایک اجتماع میں کہا کہ ہمارے سب کے ساتھ پہلے جیسی گپ شپ ہے عملاً کوئی ناراضی نہیں ہے جنرل باجوہ نے مزید کہا کہ ہم نے تبدیلی کی تبدیلی کے ضمن میں زرداری صاحب سے بات کی تھی انہوں نے ہمیں موجودہ شہبازی سیٹ اپ دیا ہے اور اب الیکشن ہونے کے بعد پانی کا پانی دودھ کا دودھ ہو جائے گا ن لیگ اور فضل الرحمن کی جمعیت العلماء اسلام دائیں بازو کے سیاسی نمائندے ہیں باجوہ‘ زرداری اور نیازی اس امر پر متفق تھے کہ اگر آئندہ کی پارلیمان میں دائیں بازو بالخصوص مزاحمتی نواز شریف اور ن لیگ کا پتہ کاٹ دیا جائے تو اگلی پارلیمان میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کو مشترکہ دو تہائی اکثریت 3/2مل جائے گی۔یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومتی دورانیہ کے پی پی پی کے پارلیمانی گروہ کی حمایت حاصل تھی اور جمعیت العلمائے اسلام کی سیاسی قیادت کی حمایت حاصل تھی، ماضی میں بھی حکومت سازی میں پی پی پی کے نام نہاد منحرف الیکٹیبلز Electableکا بنیادی کردار تھا۔جنرل باجوہ کے اشارے پر زرداری صاحب نے اپنے نام نہاد منحرف پی پی پی کے پارلیمانی جیالوں کو متحرک کر دیا اور تب سرکار کی چولیں ہل گئیںتھیں، اب معاملہ اقتدار کی کرسی پر دوبارہ براجمانی کا تھا اور ہے زرداری صاحب نے بجا سوچا کہ پی پی پی کی حمایت سے یہ ریزی اور سرکار سازی ہوئی اور اب پی پی پی کی دوبارہ عمران کی سرکاری سازی میں شہ بالا بنے یا ن لیگ کے ضم ہو کر بھی بلاول کی سرکار سازی کی جائے، وہ اپنی زندگی میں بلاول کو وزیر اعظم بنانے ‘ بعد میں کس نے پوچھنا ہے لہٰذا اب سیاسی محاذ آرائی میں عمران اور زرداری کی تمنائوں کا کھیل ہے اس محاذ آرائی کا پہلا شکار باجوہ اینڈ کو بنے ۔صد مملکت عارف علوی نے مداخلت کی اور 9اپریل کو الیکشن کرانے کا حکم صادر فرمایا تھا،جس پر اب سپریم کورٹ نے بھی مہر ثبت کر دی ہے ۔9اپریل 2023ء کو رمضان المبارک کی طاق راتیں ہیں جو دینی اور عوامی اعتبار سے کائنات کی بہترین راتیں یعنی لیلۃ القدر کہلاتی ہیں ممکن ہے ۔ مذکورہ بالا تناظر کے علاوہ یہ امر بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ آئندہ بجٹ کون دے گا۔ فی الحال ن لیگ اور کسی حد تک پی پی پی کا موقف ہے کہ بجٹ موجودہ حکمران دیں تاکہ عوام کو بجٹ میں کچھ نہ کچھ سہولت یا مہنگائی کی بیماری عارضی افاقہ کا بندوست کریں ۔ جو بجٹ میں آئندہ بننے والی سرکار سازی کے لئے راہنما اصول متعین کر دے۔ اس وقت عالمی اور مقامی مقتدرا اشرافیہ اسٹیبلشمنٹ انتشار کا شکار ہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی دونوں عالمی آشا کی اسیر ہیں پی پی پی کی خدمات کا دورانیہ طویل تر ہے اور آزمودہ ہے بلاول اورشہباز نظریاتی لحاظ سے ایک ہیں کہ شہباز سرکار میں بجٹ تک وقت گزارنے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ چینی اشیرباد سے شہباز سرکار آئی ایم ایف کی من مانی کو تابع مہل بنا سکتی ہے۔ اگر چین شہباز سرکار کی مدد کرے گا تو آئی ایم ایف پیچھے نہیں رہے گا شریف برادران بھی ایسا کھیل خوب کھیلنا جانتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی مار پر ہے مگر حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں میرا قیاس ہے کہ خراب تر حالات اپنی راہ خود متعین کریں گے کیونکہ پاکستانی ریاست حالات کی خرابی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔الیکشن کمیشن نے اب الیکشن کا فیصلہ کر دیا ہے ۔اس لیے امید قائم ہوئی ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا ۔اور اس کے بعد عوام اپنی منشا کے مطابق کسی ایک جماعت کے اقتدار سونپ دیں گے ۔جس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا ۔ آنکھ جو کچھ د یکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی