سرکاری اداروں کی کا ر کردگی گزشتہ کئی سال سے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے کرپشن اور اقربا پروری نے ہمارے ملک کے سرکاری اداروں کی کا ر کردگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہوا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن اور سوچ کے مطابق مملکت خداداد کو مکمل اسلامی جمہوریہ ہونا تھا ملک میں بسنے والے تمام طبقوں کو آئین کے تحت ہر قسم کی مکمل آزادی دی گئی۔ ہمارے ملک میں قدرت نے دنیاجہان کی نعمتیں رکھ دی ہیں لیکن کرپشن نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔معلوم نہیں ہمارے سرکاری اداروں میں بیٹھے افسران اور اہلکار اتنی زیادہ دولت اکٹھی کر کے کہاں لے کر جائیں گے ؟ہم اِس دنیا میں آنے والے اِس عبرت سرائے کے عارضی مسافر ہیں اِس دنیا میں ہمارے آنے کا جو اصل مقصد ہے وہ انسانیت کی بے لوث اور بلا تفریق خدمت ہے اور اِس سے بڑی عبادت کوئی نہیں۔ ہمارا دین حقوق العباد کے بارے میں جو احکامات دیتا ہے کیاہم اُس پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ ہمارے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسران جن کا سارا تعلق ہی حقوق العباد سے ہوتاہے کیا وہ سہی معنوں میں یہ حقوق ادا کرتے ہیں ہمارے اضلاع میں کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، آر پی اوز ، ڈی پی اوز کہ عوام کے مسائل حل کرنا ہی جِن کی اصل ذمہ داری ہے اگر یہ لوگ ٹھیک طرح سے عوام کے مسائل حل کر رہے ہیں تو یہ سب سے بڑی عبادت ہے کیونکہ معاشرے ہمیشہ امن و سکون اور اعلیٰ انتظامی امور سر انجام دینے سے خوشحال رہتے ہیں۔ ایسے افسران بہت کم اور نایاب ہیں کہ جو مقامی پولیس کے سر براہ ہو کر اپنے سائلین کے مسائل فوری حل کر رہے ہیں اُن میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے ڈی پی او احمد محی الدین ہیں کہ جنہوں نے اپنی خوش اسلوبی اور اپنے اچھے اخلاق کیوجہ سے ڈیرہ غازی خان جیسے سنگلاخ اور پہاڑوں کی طرح سخت د ل لوگوں کوبھی اپناگرو یدہ بنا لیا ہے۔اقبال نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ؎ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کابندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا گذشتہ روز ڈی پی او احمد محی الدین کی طرف سے ایک پیغام ملا سہ پہر 3 بجے ہم لوگ ڈی پی او آفس پہنچے اور احمد محی الدین سے ملاقات ہوئی اور پھرپتہ ہی نہ چلاکہ پورے تین گھنٹے کیسے گزر گئے وہ سائلیں کی درخواستوں پر احکامات بھی جاری کرتے رہے اِس دوران تین سائلین اپنی درخواستیں لے کر کمرے میں داخل ہوئے جن میں ایک شخص 60 سال کی عمر کا لگتا اور دیگر دو اشخاص پچا س سے اوپر دونوں نے علیٰحدہ علیٰحدہ ایک دوسرے کے خلاف درخواستیں پیش کیں اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیئے احمد محی الدین صاحب مسکراتے رہے اور دونوںپارٹیوں کی ایک دوسرے کے خلاف گفتگو سنتے رہے اِس دوران اُنہوں نے الزام علیہ فریقین سے پوچھا کہ دوسرے فریق کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے تو اُس بزرگ نے بتایا کہ یہ رشتے میں میرے بھانجے ہیں بس یہ الفاظ سننے تھے کہ ڈی پی او صاحب کے چہرے پرمزید مسکراہٹ پھیل گئی اور ہنستے ہوئے کہاکہ کیا ماموں اور بھانجے بھی اِس طرح سے الزامات ایک دوسرے کے خلاف عائدکرتے ہیں دو دفعہ ماں بنے تو ماموں کا رشتہ بنتا ہے ہمیں کیا ہو گیا ہے ہم کیوں ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں اِس محبت بھری گفتگو کرنے کے بعد جب دونوں پارٹیاں موم ہو چکی تو احمدمحی الدین صاحب نے کہا کہ اب آپ ایک دوسرے کو سچے دل کے ساتھ معاف کریں اور میرے سامنے گلے مل کر یہ درخواستیں واپس لیں۔ میں احمد محی الدین کا یہ روپ دیکھ کرحیران ہو گیا کہ میںنے اپنی زندگی میں یہ پہلا ڈی پی او دیکھا تھا کہ جو رشتوںکوجوڑ رہا تھا اور اتنی عاجزی انکساری کے ساتھ دونوں پارٹیوں کو کہہ رہا تھا کہ ہمارے پیارے آقا رحمت العالمین کا فرمان مبارک ہے کہ ایک دوسرے کو معاف کرنا بہت ہی اجر اور مرتبے کا مقام ہے ۔ ہم ایک دوسرے کومعاف کرنے کو تیار نہیں ہیں ہر گھرمیں یہی فساد ہے کہ میں ٹھیک ہوں میں کیوں اُس کے پاس جا کرمعافی مانگو جب کہ ہمارے پیارے آقا ؐ کی مبارک زندگی عاجزی ، احترام اور ایک دوسرے کے حقوق کا ہر حال میں خیال رکھنے میں پوشیدہ ہے کاش ہم اِس پر عمل پیرا ہو سکتے۔ احمد محی الدین صاحب کے ساتھ جرائم کے حوالے سے دیگر صحافی دوستوں نے بڑے تلخ سوال بھی کیے لیکن وہ شخص مسکراتا اپنی کرسی پر بیٹھا یہی جوابدیتا رہا کہ میں ڈیرہ غازی خان کو امن،سکون اور محبتوں کاگہوارہ بنانے کے لیے گزشتہ آٹھ ماہ سے سر توڑ کوشش کر رہا ہوں لیکن یہاں مٹی ہی ایسی سخت ہے کہ شاید ہی اِن پر کچھ اثر ہو ایس ایچ اوز کے حوالے سے بتایا کہ میری طرف سے اُن کی سیدھی راہ پر چلانے کے لیے بھرپور اقدامات جاری ہیں لیکن میں اکیلا کس کس تھانے میں پہنچ سکتا ہوں اللہ ہم پر رحم کرئے اِسی بات چیت کے دوران ضلع سردگودھا بھیرہ سے ایک ریٹائرڈ ٹیچر کا ایک خط اُن کی ڈک میںملا جو احمد محی الدین نے میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اِس کو آپ ہی پڑھیں اور جب میں نے وہ خط پڑھا تو بس پڑھتا ہی رہ گیا واقعی اچھاکام اور مخلوق خدا کی خدمت کا صلہ اللہ تعالیٰ خود تو دیتا ہی ہے لیکن اُس کی خوشبو ڈیرہ غازی خان سے سر گودھا تک بھی پہنچ جاتی ہے جو مجھے اُس خط میں محسوس ہوئی احمد محی الدین صاحب یہ اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کی خوشبو آپکی زندگی کا سب سے بڑا سر مایہ اور قیمتی تحفہ ہے آپ شاید یہاں سے بہت جلد چلیں جائیں گے لیکن اپنی اِس خوشبو کو ہمیشہ اپنی شخصیت کا حصہ ہی رہنا دینا کیونکہ اِسی سے آپ کی بندگی اور زندگی ہے ۔