ایک ماں ہے جو تقریباً 75برس کی ہے۔ زندگی کے مختلف اتار چڑھاؤ اس نے دیکھے۔ سیدھی سادی اللہ کے رستے پر چلنے والی عورت ہے۔ میک اپ اور بناوٹ سے مبّرا ایک خالص ماں۔ بالکل ویسے جیسے ہم سب کی مائیں ہوتی ہیں۔ جی ہاں! آپ سمجھ تو گئے ہوں گے میں شہر سیالکوٹ کی اس ماں کا ذکر کر رہی ہوں جو محترمہ ریحانہ امتیاز ڈار کے نام سے اب ایک انقلابی عورت کی پہچان بن چکی ہیں۔ یہ وہ ماں ہے جنہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی۔ مبینہ طور پر ان کی بہوؤں بیٹیوں کے سروں سے ڈوپٹے اتارے گئے۔ خود محترمہ ریحانہ ڈار کے سر کے بال نوچے گئے اور انہیں مبینہ طور پرگریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا گیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ محترمہ ریحانہ ڈار عْمر کے جس حصے میں ہیں اس عمر میں دو گز چلنا بھی دشوا ہوتا ہے۔ گوڈوں پہ زور ڈالنا بھی ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ مگر جب ان کے بیٹے نے سیاست چھوڑ دی تو وہ خود میدان میں اْتریں۔ وہ گلی گلی، گھر گھر جاتی رہیں۔ دلیری کے ساتھ تنِ تنہا اپنی الیکشن کمپین چلاتی رہیں۔ ڈٹ کے کھڑی رہیں۔ الیکشن کی رات میں پوری قوم ٹی وی کے آگے بیٹھی نتائج سْنتی رہی۔ جس قوم کے بارے میں سب کہتے تھے کہ یہ قوم سو رہی ہے۔ اس قوم نے بتا دیا کہ ہم ہر مشکل میں متفق ہو کر ملک کو بچانا جانتے ہیں۔ دیر تک سیالکوٹ سے ننانوے فیصد نتیجے میں ریحانہ ڈار صاحبہ پچاس ہزار کی لیڈ سے جیت رہی تھیں۔ اگلے روز 9 فروری کو حالانکہ پولنگ بند ہو گئی تھی مگر حیرت ناک طور پر خواجہ آصف کو ووٹ پڑ گئے۔ (شاید جنات نے ڈالے ہوں گے)۔ کہتے ہیں ہیرو کو دیکھ کر ہر کوئی ہیرو نہیں بن جاتا مگر ماں کی طاقت عجب ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ناں ماں کی دعا عرش ہلا دیتی ہے۔ ایک سیدھی سی عورت گھر کرہستی کو سنبھالتی رہی مگر جب اس کے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالا گیاتو اس نہتی، کمزور اور بزرگ عورت نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ پتہ نہیں یہ تقدیر کیسے کیسے کھیل کھلاتی ہے۔ ایک محاورہ مشہور ہے ’’چائے کی پیالی میں طوفان کا آنا‘‘ بظاہر تو یہ تمسخر اْڑاتا ہوا جملہ ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو طوفان پانی کے ایک قطرے سے بھی آ جاتا ہے۔ کیونکہ ایک پچھاڑا ہوا آدمی بیک وقت بڑی چیزوں اور چھوٹی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ اس میں پوشیدہ صلاحیت کی وجہ سے وہ قطرے میں چْھپے دریا تک کو دیکھ لیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ایک ماں ریحانہ ڈار کے ساتھ ہوا۔ گو کہ یہ سنگلاخ راستہ تھا۔کامیابی ان کے لیے ایسے ہی تھی جیسے کسی اونچے پربت پر چڑھنا۔ نیچے سے کھڑے ہو کر دیکھو تو چوٹی کہیں قریب ہی نظر آتی ہے لیکن اوپر چڑھنا شروع کرو تو کہیں پتھر سے پاؤں رگڑ کھاتے ہیں تب چڑھائی دشوار ہو جاتی ہے۔ لیکن جب اللہ کی مدد اور حکم ہو تو ہر مشکل منزل آسان ہو جاتی ہے۔ بیگم ریحانہ ڈار اسی پہاڑ کے سامنے نہ صرف کھڑی ہوئیں بلکہ اسے سر بھی کر لیا۔ ایک ایسی عورت جس کا نہ تو سیاست کی راہ پر کوئی قدم پڑا تھا، نہ ہی اس کے اْتار چڑھاؤ معلوم تھا۔ مگر ماں کا جذبہ وہ ارادہ بنا جس نے سنگلاخ چٹانیں بھی عبور کر لیں۔ ماں کی پرواز بلند ترین ہوتی ہے۔ ماں کا سینہ بچوں کے تمغوں اور پیار سے بھرا ہوتا ہے۔ بیگم ریحانہ امتیاز نے اپنے حلقے کا رزلٹ عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِن کے مدِّ مقابل خواجہ آصف فارم 45 کے مطابق ہر پولنگ سٹیشن سے ہار گئے مگر فارم 47 کے مطابق وہ جیت رہے ہیں۔ ریحانہ ڈار صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نبیﷺ کی اْمتی ہوتے ہوئے کامیابی اور سچائی کی امیدوار ہوں۔ مضبوطی سے ڈٹ کر کھڑی ہوں کہ میں اللہ کے رستے پر چلنے والی ماں ہوں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں۔ انشاء اللہ الیکشن کمیشن میری جیت کو ہار میں نہیں بدلیں گے۔ قارئین! یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ کسی بندے پر اس کی آرزو حرام نہیں کرتا۔ نہ ہی ربِّ کریم اس پر آگہی کے دروازے بند کرتا ہے۔ عورت اور پھر ماں جب ڈٹ گئی تو جیت گئی۔ دلیری کے ساتھ ایک ماں اپنے الیکشن کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ سچی بات ہے میری جیسی عورت بھی ہوتی تو پیچھے ہٹ جاتی۔ مگر وہ بزرگ عورت جسے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے اْس نے ثابت کر دیا کہ وہ معمولی نہیں بلکہ ایک آہنی ماں ہے۔ بیگم ریحانہ ڈار آج بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ جیت چکی تھیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے فارم 45 کے اوپر قرآن رکھتے ہوئے کہا کہ جیت میری ہے۔ اگر نہیں تو خواجہ آصف بھی آئیں اور اسی قرآن پر حلف اْٹھائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے تمام فارم 45 میڈیا کے سامنے رکھ دیے۔ بیگم ریحانہ ڈار کا کہنا ہے کہ پورے انٹرنیشنل میڈیا پر ان کی جیت کی گونج ہے۔ ان کے چہرے کی سنجیدگی ان کے اٹل ارادے کو ظاہر کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ آہنی ماں تو صرف ظلم کے خلاف انصاف کا بول بالا کرنے اْٹھی تھیں۔ جس کرب سے وہ گزریں یہ درد ایک ماں ہی جان سکتی ہے۔ بیگم ریحانہ ڈار کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے تو گھر سے جا چکے تھے۔ میں تنِ تنہا گھر سے نکلی۔ نہ میرا عثمان ڈار تھا اور نہ ہی عمر ڈار! مگر قربان جاؤں پھر شہر سیالکوٹ کے لاکھوں لڑکے میرے بیٹے بن کر شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ آخر میں کہنا چاہوں گی بہت عرصے سے ہماری ریاست اور سیاست کا وجود خطرے میں ہے۔ آپس میں لڑتی جھگڑتی قوموں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اگر ملک میں ایسے حکمران آجائیں جو خدا پر مکمل ایمان اور توکل رکھتے ہوں تو اس ملک سے نجانے کون کون سے خزانے نہ نکلیں گے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے پاس ایسی دلیر مائیں ہیں جو قابلِ تقلید ہیں۔ ماں تو طوفان میں گھری کشتیوں کو نکال لے جاتی ہے۔ ماں کے ہر سچے جذے کو سلام!