5 اگست 2019ء کو مودی حکومت کی طرف سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر دی گئی تھی۔ بھارت کے اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا کچھ سیاسی جماعتوں نے درخواستوں میں موقف اختیار کیا کہ مودی سرکار کا یہ اقدام نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق پر کاری ضرب ہے بلکہ یہ اقدام بھارتی آئین کے بھی منافی ہے۔ 5 اگست 2019ء سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کی طرف تو بھارتی سپریم کورٹ کی توجہ نہیں گئی لیکن سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر سماعت کی اور فصیلہ بھی محفوظ کر لیا جو 11 دسمبر کو سنا دیا گیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے خصوصی حثیت کی بحالی کی درخواستیں مسترد کردیں،اور فصیلے میں لکھا کہ چونکہ یہ عارضی طور پر کیا گیا تھا لہذا اس کو ختم کرنے کا اقدام درست ہے اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ ہے بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ جس کی توقع پہلے سے کی جا رہی تھی کہ جب بھی بلی تھلے سے باہر آئے گی وہ بھی بھارتی کالے قوانین کی طرح کالی ہی ہو گی۔ بھارتی سپریم کورٹ ہو یا اقوام متحدہ ہو ان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کشمیریوں کی نسل کشی پر کشمیریوں کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی قطعی طور پر کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ ادارے بھی متعصب ہیں ان کے متعصبانہ اقدامات کی وجہ سے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں ملا ۔ان سیاسی جماعتوں کے لیے جنہوں نے درخواستیں دے حجت اہتمام کیا یہی کہا جا سکتا ہے میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دعا لیتے ہیں بھارتی حکومت ہو فوج ہو یا پھر سپریم کورٹ انہوں نے کشمیر کے عوام کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویہ اختیار کر رکھا ہے ان کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے ایک لاکھ کشمیریوں نے حق خود ارادیت کے لیے قربانیاں دی ہیں ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی سے متعلق متعصبانہ فیصلہ سنا ہے ذرا متعصبانہ فصیلے کے مندرجات ملاحظہ کریں بھارتی سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا بھارتی صدر کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔ ساتھ ہی بھارتی سپریم کورٹ نے 30 ستمبر 2024ء تک مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے بھارتی سپریم کورٹ کے فصیلہ کے مطابق آرٹیکل 370 کے نفاذ کا حکومتی فیصلہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔ آرٹیکل 370 کا نفاذ عارضی تھا اور اس کو ہٹانے کا فیصلہ درست تھا، صدر کے پاس آرٹیکل 370منسوخ کرنے کا حق موجود ہے۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انضمام کے بعد اب جموں وکشمیر الگ ریاست نہیں رہے گی۔ آرٹیکل 370 منسوخی کا فیصلہ قانونی تھا یا نہیں، یہ اہمیت کاحامل نہیں۔ ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا، آرٹیکل 370 عبوری تھا مستقل نہیں۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ صدر راج کے تحت لیا گیا ہر فیصلہ قانونی چنوتی کے دائرے میں نہیں آتا۔ آرٹیکل 370 منسوخ کرنے سے قبل آئین ساز اسمبلی کی سفارش لازمی نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ تو مودی کی زبان بول رہی ہے۔ پانچوں ججز اس قدر متعصب ہوں گے یہ تو کشمیریوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا محض 16 روزہ بحث کرانے کی کیا ضرورت تھی پہلے ہی دن یہ متعصبانہ فصیلہ دے دینا تھا ۔ کون پوچھنے والا تھا ۔ انصاف کا ترازو تو مکمل طور پر بھارت کی طرف جھکا ہوا ہے۔ بہرحال بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ ججز تم نے 30 ستمبر 2024 تک مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کروانے کی جو تاریخ دی ہے وہ ہوا میں اڑ جائے گی اسی طرح جس طرح اقوام متحدہ میں بھارتی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات ساز گار ہوتے ہی کشمیریوں کو استصواب رائے کا موقع دیا جائے گا وہ دن اور آج کا دن بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے تک کشمیریوں کو استصواب رائے تو بہت دور کی بات ہے انہیں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کٹھ پتلی حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ حیرت تو مقبوضہ کشمیر کی ان سیاسی جماعتوں پر ہوتی ہے جو اس توقع کے ساتھ بھارتی سپریم کورٹ درخواستیں لے کر پہنچ گئیں کہ ہمیں انصاف چاہیے۔جیسے پہلے بھارتی حکومت کشمیریوںکی راہ میں پھول بچھاتی تھیاور 370 اور 35 اے کے قانون کے تحت کشمیری شاداں و فرداں تھے اور ’’نیرو‘‘(اقوام متحدہ ) چین کی بانسری بجاتا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے یہ نقشہ کھینچا ہو گا اس لیے وہ ان قوانین کے خاتمے پر بھارتی سپریم کورٹ میں چلے گئے لگتا ہے کہ یہ بھی کشمیریوں کے خلاف ایک سازش ہی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ سے بھی مہر لگوا لی گئی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس وجہ سے ہم اس کے ہر انگ کاخیال رکھ رہے ہیں اور تو اور انصاف کی کرسی پر بیھٹے 5 ججوں نے بھی انصاف کا بول بالا کیا ہے ۔ ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے دی جانے والی درخواستوں پر میڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 پر 16 روز تک سماعت ہوتی رہی۔اور سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اگست اور ستمبر میں کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ہم بھارتی سپریم کورٹ کے اس متعصبانہ فصیلے پر یہ کہنا چاہیں گے کہ مقبوضہ کشمیر نہ کھبی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا اور نہ کھبی ہو گا اور یہ کوئی زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں ہے یہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات ہے۔ چلیں بھارتی سپریم کورٹ کے 11 دسمبر 2023 کے متعصبانہ فصیلے کو آگر بھارت دنیا کے سامنے واویلا مچا کر پیش کرے گا تو دنیا پھر بھی اعتبار نہیں کرہے گی کیونکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور دنیا اسے متنازعہ ریاست قرار دیتی ہے ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے بھی التجا کرتے ہیں کہ وہ 30 ستمبر کے متوقع انتخابات میں کشمیر میں تاریخ رقم کر دیں اور حق خود ارادیت کے ساتھ کھڑے راہنماؤں کو ایسا مینڈیٹ دیں کہ دنیا اسے بھارتی حکومت کے خلاف استصواب رائے خیال کرئے۔