کبھی کبھی تو دل میں خیال آتا ہے کہ جب کوئی بھی یہاں سیریس نہیں تو ہمیں بھی جی ہلکان کرنے اور اپنا اور دوسروں کا خون جلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کوئی نام نہاد احساس کی حدّت یا شدت ہے تو اس کو بھی کچھ مدت کے لئے لوری دے کر سلا دینا چاہیے۔ بقول شاعر: کس کس کو یاد کیجئے کس کس کو روئیے آرام بڑی چیز ہے مُنہ ڈھک کے سوئیے مگر کیا کیجئے کہ یہ دل وحشی کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ چپ رہو تو بے حسی کے طعنے دیتا ہے اور اگر غبارِ خاطر کا اظہار کرتے رہو تو یہ حضرت ناصح بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ اور بزبانِ شاعر کہتا ہے کہ ؎ کچھ بے حسی بھی چاہیے بحر سکون دل ہر لرزشِ صبا کے کہے پر نہ جائیے اس دورِ پر آشوب میں آنکھیں بند کریں تو درد کی لہریں کانوں سے گزر آتی ہیں اور اگر کان بھی بند کریں تو اہل درد سیدھا درِدل پر دستک دینے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ جن لوگوں نے ٹیلی ویژن یا سوشل میڈیا پر براہ راست قانون کے محافظوں کو فیصل آباد کے ایوان عدل میں عدل و انصاف کا بولا بالا کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ یقینا ’’محظوظ‘‘ ہوئے ہوں گے۔ وکلاء نے اپنے مطالبات کے حق میں جلوس نکالا‘ نعرے بازی میں معاشرے کے دیگر طبقات سے بازی لے گئے۔ کچہری میں کرسیاں توڑیں۔ ڈپٹی کمشنر کا اجلاس بند کرایا۔ ڈی سی سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دفتر میں بند کر دیا اور کچھ اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق ڈی سی کو دھکے بھی دیے۔ یہ بات تھی بدھ کے روز کی۔ اگلے دن جمعرات کو بھی فیصل آباد کے وکلاء نے پھر احتجاج جاری رکھا۔ سائلین اور ایک پولیس والے کو مارا پیٹا اور سیشن کورٹ کے دروازے بند کر دیے۔ اگر جان کی امان پائوں تو جناب چیف جسٹس سے عرض کروںکہ وہ گھر کی بھی خبر لیں کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ بنچ اور بار دونوں اکٹھے چلتے ہیں تو لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ وکلاء کی اس ہلڑ بازی کا دو روز سے کسی بھی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں وکلاء نے بلا شبہ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کے لئے اس تحریک میں بھر پور شرکت کی تھی۔ تحریک کی کامیابی کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ وکلاء پہلے سے بڑھ کر قانون کے پابند ہو جاتے مگر ہوا اس کے برعکس کہ وکلاء نہ صرف ہتھ چھٹ ہو گئے بلکہ وہ اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھنے لگے۔ یہاں یہ بات ناقابل فہم ہے کہ فیصل آباد ‘ سرگودھا اور گوجرانوالہ میں لاہور ہائی کورٹ کے بنچ کی اگر ضرورت ہے تو پھر اس کے قیام میں تاخیر کیوں اور اگر مطالبہ درست نہیں تو پھر وکلاء کے ساتھ باوقار اور بامقصد انداز میں مذاکرات کیوں نہیں کر لئے جاتے۔ اب وکلاء کے بعد سیاست دانوں کی طرف آ جائیں۔ یوں تو فواد چودھری کی اقتدار سے پہلے بھی گرم گفتاری بڑے بڑے گل کھلاتی رہی ہے۔ مگر اقتدار میں آ کر وہ اپنے آپ میں نہیں رہ سکے۔ وہ بات بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر وقت آتش زیرِ پا رہتے ہیں اور شعلے اگلتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے پوچھ لے کہ جناب والا اتنی شعلہ نوائی اور گرم گفتاری ناروا ہے تو وہ کہتے ہیں میں نے تو کوئی ایسی بات تو نہیں کہی جس پر اپوزیشن سیخ پا ہو جائے ‘کسی کا نام لئے بغیر صرف چوروں‘ ڈاکوئوں اور لٹیروں کی بات کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کی کردار کشی کے علاوہ حکومت کا کوئی اور ایجنڈا نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اسد عمر ہر وقت معیشت کی الجھی زلف کو سلجھانے میں بھاگ دوڑ کرتے کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی ہر وقت خارجہ تعلقات کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے سرگرم عمل کیوں دکھائی دیتے ہیں اور خود وزیر اعظم بھی روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پروجیکٹ شروع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر طعنہ زنی‘ گرم فتاری اور دشنام طرازی ہی حکومت کا ایجنڈا ہے تو پھر باقی سارے وزراء بھی اپنے اپنے کام چھوڑ کر خود کو اس ’’کارخیر‘‘ کے لیے وقف کر دیں جو ’’کار خیر‘‘ فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان انجام دے رہے ہیں۔ جمعرات کو سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کی طرف سے بارہا کی گئی تنبیہ کا فواد چودھری پر کوئی اثر نہ ہوا تو چیئرمین نے سینٹ کے موجودہ سیشن میں قواعد و ضوابط کے مطابق فواد چودھری پر سینٹ کے رواں اجلاس میں شرکت پر اس وقت تک پابندی عائد کر دی ہے جب تک کہ وہ سینٹ میں آ کر اپنی غیر پارلیمانی زبان پر معافی نہیں مانگ لیتے۔ معافی یا معذرت کرنے کے مطالبہ پرفواد چودھری مزید اکڑ گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ڈاکو‘ چور اور لٹیرے ہی کہا ہے اور کچھ نہیں کہا۔ دل تھام کے رکھیے ابھی تو آپ کو ایک اور سیاست دان کے تازہ ترین شاہانہ شاہکار کی چند جھلکیاں دکھانی ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ایئر پورٹ پر گلگت بلتستان کے ایک وزیر فدا حسن گلگت کے لیے جانے والی پی آئی اے کی ایک پرواز کے منسوخ ہونے پر آگ بگولہ ہو گئے انہوں نے پی آئی کے عملے کو برا بھلا کہا اور ایک سینئر اہلکار کو دھکے دیے ۔ایک نہیں دو بار انہیں دھکا دیا‘ سخت سست کہا۔ پرواز موسم کی خرابی کی بناء پر پہلے ملتوی اور پھر منسوخ ہوئی۔ وزیر موصوف نے محض برا بھلا کہنے اور پی آئی اے اہلکار کو دھکے دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ اور وزیروں کو ساتھ ملایا اور ایئر پورٹ پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ بعدازاں وزیر سیاحت فدا حسن اور ایک اور وزیر نے کمال قانون پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے احتجاجاً اپنے اپنے کوٹ ایئر پورٹ کے فرش پر جمع کر کے انہیں آگ لگا دی اور یوں احتجاج کی آگ کو مزید بھڑکایا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو نہ صرف ڈسپلن کا درس دیا بلکہ تحریک پاکستان کے دوران اور پھر قیام پاکستان کے بعد عملی طور پر خود بھی ڈسپلن کی پابندی کی اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کروائی۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد غالباً پہلے ہی اجلاس میں عین وقت پر اجلاس شروع کر دیا اور اس وقت تک نہ پہنچنے والے وزراء کی کرسیاں اٹھوا دیں اور پھر تاخیر سے آنے والے وزراء قائد ملت لیاقت علی خان سمیت اجلاس کے دوران کھڑے رہے۔ جہلم ملٹری کالج کی ایک تقریب میں پاکستان کے حکمران جنرل یحییٰ خان مہمان خصوصی تھے۔ صبح کی تقریب تھی اور نیند کا خمار یحییٰ خان کی آنکھوں میں تھا۔ تقریب میں قومی ترانے کی دھن بجنا شروع ہو گئی اور یحییٰ خان صوفے پر براجمان رہے۔ اچانک ملٹری کالج کے کمانڈر کرنل رفیق کی نظر ان پر پڑی وہ ڈسپلن کی اس خلاف ورزی کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کر سکے فوراً گونجدار آواز میں گرجے۔Come to Shun General۔یحییٰ خان ہڑ بڑا کر اٹھے اور اٹین شن ترانے کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ یہ تھا اس دور تک کا ڈسپلن۔ مگر جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے برسراقتدار آ کر عوامی پاکستان کو جو کلچر دیا اس میں قانون اور ڈسپلن کی پابندی دم توڑ گئی۔وکلاء عدلیہ کے احکامات کی پابندی سے انکاری ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری چیئرمین سینٹ کی علی الاعلان حکم عدولی کر رہے ہیں۔ گلت بلتستان کے وزراء پی آئی اے کے شیڈول کو اپنے پائوں تلے روند رہے ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ کیا کسی اور مہذب جمہوری ملک میں ایسا ممکن ہے ۔تبھی میں کہتا ہوں کہ یہ بادشاہ ہوں کا ملک ہے۔