پاکستان کی سیاست کے تناظر میں مجھے یہ والا لطیفہ حقائق کے بہت قریب لگتا ہے ۔ ایک پٹھان ٹرین میں سفر کر رہا تھا ۔ سفر لمبا تھا ، ساتھ بیٹھی سواری نے وقت گزاری کے لئے سلسلہ گفتگو کچھ یوں شروع کیا کہ خان صاحب آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں ذات پات کا نظام بہت پھیلا ہوا ہے ، یہاں کوئی سید ہے تو کوئی آرائیں ہے ۔ کوئی مراثی ہے تو کوئی گجر ہے ۔ آپ کے نزدیک کونسی ذات بہتر ہے ۔ خان صاحب بولے کہ بھائی ہمارے نزدیک تو یہ بڑا سادہ سا مسئلہ ہے ۔ ذاتوں میں اول ذات تو ’ سید ‘ کا ہے کیونکہ یہ رسول کا خانوادہ ہے ، اس کے بعد ہمارے پٹھانوں کی ذات ہے اور باقی سب ’ خدمت ‘ کے لیے ہیں۔یہ لطیفہ مجھے پسند ہے اور میں اس کا ذکر مختلف تناظر میں کرتا رہتا ہوں۔اپنے ملک کے طاقتور سیاسی خاندانوں کو دیکھ کر بھی مجھے یہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے ۔کسے معلوم نہیں کہ اپنے ملک میں دو خاندان سیاسی طور پر بہت تگڑے ہیں ، ایک پنجاب کا ’’ شریف ‘‘ خاندان جس کے ایک فرد جناب شہباز شریف آج کل ملک کے وزیراعظم ہیں اور اسی خاندان کی ایک دختر نیک اختر اپنے صوبہ یعنی پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ اپنے ملک کا دوسرا تگڑا خاندان ’’ بھٹو ‘‘ خاندان ہے جس کے موجودہ سربراہ جناب آصف علی زرداری اپنے ملک کے اس وقت ’ صدر ‘ ہیں ۔ذہن میں یہ واضح ہو کہ جناب ’ شہباز شریف ‘ اس وقت دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہیں ۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ اسی شریف خاندان کے جناب نواز شریف اپنے ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اسی طرح جناب ’ زرداری ‘ صاحب بھی دوسری مرتبہ اس ملک کے عہدہ صدارت کی فضیلت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب تو اس ملک کے رہنے والے جنابہ ’’ مریم نواز شریف ‘‘ کو بھی اپنے ملک کی مستقبل کی وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ اس خیال اور تصور کی منطق یہ بتائی جاتی ہے کہ ’’ شریف خاندان ‘‘ کا جو فرد ایک دفعہ مسند وزارت اعلیٰ پنجاب پر براجمان ہو جاتا ہے وہ اس ملک کا وزیراعظم ضرور بنتا ہے۔ ملک کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ لیں ، آپ پر حقائق واضح ہو جائیں گے۔ پنجاب کے اس حکمران خاندان کی یہ درخشندہ روایات دیکھ کر اپنے ملک کے دوسرے حکمران خاندان کی ایک بیٹی جنابہ آصفہ بھٹو نے بھی صوبہ سندھ میں اپنے والد جناب آصف علی زرداری، موجودہ صدر پاکستان کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کی ٹھان لی۔آپ کے علم میں ہے کہ سندھ میں بھٹو خاندان بہت ہر دلعزیز ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ آصفہ بھٹو کا چہرہ تو ویسے بھی ’’ بی بی شہید ‘‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے لہذاوہاں کسی نے بھی اُن کے مقابلے میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ، البتہ آج کے اخبار میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ،کا بیان چھپا تھا کہ ان کی پارٹی کے لوگوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن انھیں اغوا کر لیا گیا اور وہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکے۔سو آصفہ بھٹو اپنے والد صاحب کی خالی کردہ سیٹ پر جیت گئیں ۔ ساتھ ہی زرداری صاحب یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ اگلے الیکشن کے نتیجہ میں ’’ بلاول بھٹو زرداری ‘‘ نے اپنے ملک کا وزیر اعظم بننا ہے ۔ آج کے اخبار میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما جناب قمر زمان کائرہ کا یہ بیان چھپا ہے کہ یہی حکومت چلنی ہے اور اسی نے ڈلیور کرنا ہے ، نئے الیکشن سے استحکام کی بجائے اور بڑا بحران آ جائیگا۔ در اصل اپنے ملک کی سیاست میں شخصیت پرستی ہے ، کہیں بھی سیاسی منشور کا ذکر نہیں ہوتا۔ ہاں ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے ، اپنی سیاست میں اپنی پارٹی کا منشور سامنے لئے جس میں عام آدمی ، فیکٹری مزدور و کسان ، ہاری کا ذکر تھا ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آج بھی فیکٹریوں کے مزدور بھٹو سے پیار کرتے ہیں اور اسی کے نام پر ووٹ دیتے ہیں ۔ اس کے جانے کے بعد اپنے ملک کی سیاست میں صرف اور صرف شخصیت پرستی ہے۔میں نے دو تین اضلاع میں بطور ڈی سی او (DCO ( الیکشن دیکھے ہیں ؛ کہیں پارٹی منشور کا ذکر تک نہیں ہے، صرف شخصیات ہیں۔ میں نے حافظ آباد ضلع میں تین سال سے زیادہ عرصہ گزارا ہے ، وہاں کے لوگ مہدی حسن بھٹی کو ووٹ دیتے ہیں ۔ حال ہی میں یعنی ماہ فروری میں ہونے والے الیکشن میں بھی لوگوں نے اس کی بیٹی کو قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے جتوایا ہے حالانکہ اس کا سیاسی تعلق آج بھی تحریک انصاف سے ہے ۔ مہدی بھٹی کسی بھی پارٹی کو جوائن کر لے اس کے علاقے کے لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں۔ اسی طرح میں نے ضلع رحیم یار خان میں دیکھا ہے، وہاں مخدوم احمد محمود کے اپنے ووٹ ہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے۔آج کل وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے ، لہذا اس کے دو بیٹے پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑتے ہیں اور اپنی سیٹیں نکال لیتے ہیں۔ہاں ، اپنے ملک میں ایک ایسا سیاستدان بھی ہے جو اپنی پارٹی کی ٹکٹیں اپنے رشتہ داروں کو نہیں دیتا ۔ اس لیے اس کے رشتہ دار اس سے دکھی سے رہتے ہیں ۔وہ منشور کی باتیں کرتا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ اپنی اور اپنے خاندان کی منفعت کو چھوڑ کر اس کی باتوں سے پیار کرتے ہیں۔آج بھی لوگ ، خصوصاً خواتین اس کی خاطر جیلیں کاٹ رہی ہیں ۔ اُسے کئی کیسوں میں جیل کی سزائیں سنا دی گئی ہیں لیکن اس کی چال میں خم نہیں آیا بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ میں اب جیل میں سیٹ ہو گیا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی نہیں گھبراتا کہ اس کا مقابلہ دنیا کے طاقتور ممالک کے مافیا سے ہے۔زندگی تو ہر ایک کی گزر جاتی ہے ، مشکل ادوار بھی گزر جاتے ہیں لیکن تاریخ کے صفحات میں انہی کے نام سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کے مفاد کی خاطر مشکلیں جھیلیں۔آپ کے علم میں ہو گا کہ اپنے ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن پھر بھی یہ ملک دنیا بھر کے ممالک سے قرضے مانگتا پھرتا ہے ۔ اس زبوں حالی کی وجہ سب کو معلوم ہے ، اور وہ ہے یہاں کے بااقتدار طبقوں کی بے حسی اور خود غرضی ۔جن معاشی مسائل کا اس وقت قوم کو سامنا ہے ، اس کا حل صرف ایک ہی ہے کہ اس ملک کا بر سراقتدار طبقہ کچھ عرصہ کے لیے اپنی مراعات کی قربانی دے تاکہ ملک کی معاشی صورت حال تھوڑا سا سنبھالا لے سکے۔سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے والے دفتری اوقات کے بعد اپنی گاڑیاں اپنے دفاتر میں بند کر جائیں۔ اپنے گھروں میں استعمال شدہ بجلی کے بل تمام سرکاری لوگ اپنی جیب سے جمع کرائیں۔کاش اس ملک کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو اس قرضوں پر زندہ قوم کا کچھ خیال آ جائے۔