وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت تجارت کو ہدایت کی ہے کہ اگلے پانچ سال میں برآمدات کو دوگنا کرنے کے لئے لائحہ عمل وضع کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ای کامرس برآمد کنندگان کو ضروری سہولیات فراہم کی جائیں،’’میڈ ان پاکستان ‘‘برانڈ برآمد کرنے والوں کے مسائل حل کئے جائیں۔وزیر اعظم نے سیاحت کے شعبے سے بھرپور استفادہ پر زور دیا۔ بلاشبہ پاکستان کے وسائل اور افرادی قوت کی استعداد کو دیکھا جائے تو معاشی بد حالی کی واحد وجہ حکومتی پالیسیاں غیر معیاری ہونے اور معاشی بہتری کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے حکمرانوں کی نالائقی ہے۔سیاسی و افسر شاہی حکمران الیٹ کی مجرمانہ کارکردگی کا خمیازہ عام آدمی بھگت رہا ہے۔وہ لوگ جو برسہا برس سے نظام چلا رہے ہیں حیران کن طور پر ہر بار ایک جیسے وعدے کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر سب بھول جاتے ہیں۔ اس سے عوامی سطح پر ناراضی بڑھی ہے۔ اپریل 2022میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے دعوے کیے تھے اور قیام کے چند دن بعد تک ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی بھی دیکھی گئی۔تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ۔ تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں میں کمی لانے کے لیے حکومت نے 19 مئی 2022 کو لگژری چیزوں کی درآمد پر پابندی لگا دی۔اس پابندی کے باوجود زرمبادلہ ذخائر کمی کا شکار نظر آئے جس کی وجہ تیل مصنوعات، خوردنی تیل، گندم اور مشینری کی درآمد پر خرچ ہونے والے ڈالرز تھے۔ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی وجہ سے بندرگاہوں پر درآمدی کارگو کے کنٹینر پھنسنا شروع ہو گئے اورپھرہزاروں کی تعداد میں ایسے کنٹینرز پھنس گئے جن کی ایل سیز ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہ کھل سکی تھیں۔درآمد برآمد کے سکے کا دوسرا رخ ہوتی ہے۔دونوں ایک دوسرے سے تقویت پاتی اور تجارت میں توازن پیدا کرتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023 پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے لیے بدترین رہا،یاد رہے اس مدت میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی ۔ سال2022 کے مقابلے میں کپڑے کی برآمدات میں ساڑھے 14 فیصد تک گراوٹ کے باعث صنعتکاروں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، کئی بڑے صنعتی یونٹس نے ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے جواب دے دیا۔کپڑے کی صنعت کیلیے 2023 کا سال کسی ڈراؤنے خواب جیسا تھا، صنعتی ترقی کو ایسا بیک گیئر لگا کہ معیشت برباد ہو گئی، تنزلی کا سلسلہ جنوری سے شروع ہوا جب 2022 کے مقابلے ٹیکسٹائل برآمدات 2023 کے پہلے ماہ 14 اعشاریہ 83 فیصد تک گر گئیں۔اسی طرح ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں فروری میں 29 اعشاریہ 92، مارچ میں 22 اعشاریہ 61، اپریل میں 29 اعشاریہ 11، مئی میں 19 اعشاریہ 57 جبکہ جون میں 13 اعشاریہ 73 فیصد کمی ہوئی۔ صنعتکار بحران کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور پیداواری لاگت میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔حکومت بھی یہ تسلیم کرتی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔۔مالی سال 2023 تا 24 کی پہلی ششماہی میں بھی صورتحال یہی رہی، جولائی سے دسمبر تک مجموعی طور پر ایکسپورٹ میں ساڑھے 6 فیصد کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی۔ادارہ شماریات کے مطابق 2022 تا 23 کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 7 ارب 36 کروڑ ڈالر جبکہ رواں سال اب تک 6 ارب 88 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے ساتھ دوسرے شعبے بھی برآمدی گراوٹ کی زد میں آئے ۔حال ہی میں کنو کے کاشت کاروں کے ساتھ جو ہوا حکومت نے اس پر کوئی غور نہیں کیا۔پاکستان میں اوسط پیداوار 20 لاکھ ٹن سے 25 لاکھ ٹن ہے۔ مگر اس سال پیداوار دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ پیداوار تاریخی ہونے کے باوجود کئی وجوہات کی بنا پر مارکیٹ میں مندی ہے۔کینو کے بڑے ایکسپورٹر کہتے ہیں کہ اب نقصان برداشت نہیں ہو رہا، سوچ رہے ہیں کہ کاروبار کو تبدیل کر دیں۔گزشتہ سال 35 لاکھ ڈالر کے کینو ایکسپورٹ کرنے والی ایک کمپنیکہتی ہے کہ اس سال کاروبار نہیں ۔ فیکڑی بند ہے جس پر افسوس ہونا چاہیے مگر مارکیٹ میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچ جانے کی خوشی ہے کہ کاروبار نہیں کیا تو ٹھیک کیا۔معلام نہیں برآمدات میں اضافہ کی خواہاں حکومت پھل و سبزیوں کو اہمیت دیتی ہے یا نہیں۔سابق نگران وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف نے اپنے دور وزارت میں بتایا تھا کہ دسمبر2023 میں آئی ٹی ایکسپورٹس 22.67 فیصد اضافے سے 303 ملین ڈالرز رہیں۔ان کا کہنا تھاکہ 50 فیصد ڈالرز رکھنے کی سہولت، ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم اور فری لانسرز کیلئے سہولیات آئی ٹی ایکسپورٹ بڑھنے کی بنیادی عوامل ہیں۔نئی حکومت نے آٹی برآمدات سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن آئے روز کسی سیاسی مقصد سے انٹرنیٹ ،ایکس، اور سماجی رابطوں کی سائٹس کی بندش سے یہ امیدیں گھائل ہو رہی ہیں۔پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس کے ان ہمسائیہ ممالک کے ساتھ اچھے نہیں جو پاکستانی مال کی منڈیاں ہو سکتے ہیں۔افغانستان، بھارت، ایران کے ساتھ تجارت تسلی بخش نہیں۔ چین سے تجارت متوازن نہیں۔ بنگلہ دیش ، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ تک ی معیشت پاکستان سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔جب تک وسائل کا بہتر استعمال اور بین الاقوامی تعلقات کو منڈی کے نقطہ نظر سے استوار نہیں کیا جائے گا برآمدات میں اضافہ محال ہے۔