انتخابات سے پہلے جو پارٹی (پی ٹی آئی) سب سے زیادہ خسارے میں نظر آ رہی تھی اور جو جماعت (ن لیگ) سب سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں نظر آ رہی تھی، یہ ساری صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور اتنے بڑے اپ سیٹ سامنے آ رہے ہیں کہ ایک طرف 8 فروری کی رات کو رکنے والے انتخابی نتائج کے بعد ہونے والے اعلانات کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تو دوسری طرف عوام کی قوت سے تمام جماعتیں خوفزدہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ن لیگ کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھے، اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قبل ازیں پارٹی کی سی ای سی کے بعد ن لیگ کو اعتماد میں لینے یا کم ازکم آگاہ کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی اور پریس کانفرنس کا انعقاد کر کے اعلان کردیا کہ ن لیگ کو وزیراعظم کیلئے پیپلز پارٹی ووٹ دیدے گی لیکن وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی، البتہ بلاول بھٹو زرداری نے آصف علی زرداری کیلئے صدر مملکت، پیپلز پارٹی کیلئے سپیکر قومی اسمبلی، گورنرز اور چیئرمین سینٹ کے تناظر میں ن لیگ سے حمایت کا تقاضا کیا، عوام کے ووٹ کی طاقت نے محمود خان اچکزئی کو پی ٹی آئی کی کامیابی سر کوچہ و بازار تسلیم کرنے پر مجبور کیا جبکہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ م الرحمان نے سر خم تسلیم کیا کہ نتائج کو تبدیل کیا گیا، وہ یا کوئی اور نہیں پی ٹی آئی کا امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا ہے، مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس سے پہلے ان کی جماعت کے ایک اہم رہمنا مفتی کفایت اللہ پی ٹی آئی کے مدمقابل امیدوار کے ہمراہ بیٹھ کر بانگ دہل اظہارِ کر چکے کہ انھیں شکست اور پی ٹی آئی کو کامیابی ہوئی، انھوں نے نواز شریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کر لیں، ساتھ ہی ساتھ عوامی مینڈیٹ سے کسی قسم کی روگردانی پر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کی کامیابی کا تذکرہ کیا، 8 فروری کو پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والے عوامی مینڈیٹ سے کسی کو انکار نہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ تاحال حالیہ انتخابات کے بنیفشری کے طور پر سامنے نہیں آسکے، گو کہ پیپلز پارٹی پر بھی انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں مگر چند مقامات پر پیپلز پارٹی کے امیدوار انتخابی نتائج پر سراپا احتجاج ضرور نظر آ رہے ہیں لیکن ن لیگ وہ واحد جماعت ہے، جسے تادم تحریر انتخابی نتائج پر کوئی اعتراض نظر نہیں آتا بلکہ وہ اس کے دفاع میں مگن ہے، جیسے مولانا فضل الرحمان کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے بعد رانا ثنا اللہ کہا کہ مولانا کی کون سی کارکردگی تھی، جو نتائج آئے ہیں ایسے ہی آنے کی توقع تھی لہذا ہمیں انتخابی نتائج کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوگا، یہاں اب دو سوال بہت زیادہ اہم ہیں، ایک یہ کہ کیا انتخابات میں دھاندلی ہوئی؟ دوسرا یہ کہ انتخابات میں اگر فرض کر لیا جائے کہ دھاندلی نہیں بھی ہوئی تو جو انتخابات کی صورت میں عوام کا رد عمل سامنے آیا ہے، اس کے بعد زور زبردستی حکومت قائم کر کے ن لیگ اور ملک و ملت کو کچھ حاصل ہوگا؟ حالیہ انتخابات میں فارم 45 اور فارم 47 کے معنی سیاسی اور صحافتی حلقوں سے باہر نکل کر عوامی حلقوں تک واضح ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ فارم 45 کے مطابق وہ قومی اسمبلی کی 180 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے اور دھاندلی کے ذریعے رزلٹ روک کر اس سے اس کی نشستوں کو چھینا گیا، پی ٹی آئی کے متعدد امیدوار اس ضمن میں عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے متعلقہ فارمز پر گئے، کئی کی درخواستوں کو مسترد بھی کردیا گیا، بیشتر امیدوار سوشل میڈیا پر مبینہ دھاندلی کی ویڈیوز شواہد کے طور پر شئیر کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں، لہذا عوام کی اکثریت جہاں کھڑی ہے وہ دھاندلی پر قوی یقین کر چکی ہے، اس تناظر میں پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج موخر کر کے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، انتخابات میں عوام کا ووٹ کے ذریعے اظہار تمام سیاسی جماعتوں کیلئے درد سر بن چکا ہے، استحکام پاکستان پارٹی جسے ان انتخابات کیلئے کنگز پارٹی کا تاثر حاصل تھا، اس کے سربراہ جہانگیر خان ترین سیاست کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوگئے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو یہ موقف اپنا کر جماعت اسلامی کی امارت سے مستعفی ہونا پڑا کہ ان کی انتخابات میں شکست کے بعد ان کے پاس امیر رہنے کا کوئی جواز نہیں، گویا انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کو اپنے مزاج پر نظر ثانی کا احساس ضرور ہوچکا ہے، عوام نے اپنی ترجیحات کو بہت حد تک واضح کر دیا ہے، ایسی فضا قائم ہوئی ہے کہ جنہیں جتوایا گیا وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہیں، لہذا دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی؟ اس کا فیصلہ عوام کر چکے ہیں، مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنسز پر ایک زاویے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عوامی طاقت پر ن لیگ کے اپنے اتحادی بھاگ گئے ہیں اور وہ مزید ہاری ہوئی اس بازی میں ن لیگ کا ساتھ دیکر اپنی سیاست کو تباہ کرنے کے متحمل نہیں، تاہم ن لیگ ایک طرف ساری خرابی بسیار کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے اور وفاق و پنجاب میں اپنی حکومت قائم کر کے اس کا بوجھ بھی اٹھانے کیلئے تیار ہے، ن لیگ شہباز شریف کو وزیراعظم اور مخترمہ مریم نواز کو وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب کروانا چاہتی ہے، شہباز شریف وزیر اعظم بن بھی گئے اور پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل بھی ہوگئی تو ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات اور عوامی مینڈیٹ سے محروم یہ حکومت زیادہ عرصہ چل پائے گی نہ ملک و ملت کو اس حکومت سے کچھ حاصل ہوسکے گا ۔