سنتے آئے تھے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی‘ اب دیکھتے کیا ہیں کہ جن کو آتی تھی ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور وہ جو سیاستدانوں کے بھی استاد مانے جاتے تھے جن کے تُکے بھی عین نشانے پر بیٹھا کرتے تھے ان کے ترکش خالی ہو گئے ۔کوئی تیر ہدف تک نہ پہنچا۔ فکری انتشار‘ ذہنی خلفشار نے نیندیں حرام کر دی ہیں‘ کسی کل چین نہیں پڑتا‘ جو اپنے حریف کو ڈرانے آئے تھے خوف سے ان گھگی بندھ گئی ہے۔ آنکھوں میں اور چہروں پر اذیت لکھی ہے۔ دہشت کی وحشت نے شکلیں تک بگاڑ دی ہیں اور وہ ایک جسے سیاست نہیں آتی چار دانگ عالم اس کے ڈنکے بج رہے ہیں‘ عالمی رائے عامہ ایک ٹک اسی پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ایک ایک حرکت اور ہر قدم و اقدام عوام الناس کا رجحان قرار پاتا ہے۔’’خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں‘‘ ان کی بے خبری کا یہ عالم رہا کہ جوں نیند سے بڑ بڑا کے اٹھے ہوں‘ بجلیوں پر بھی اجارہ تھا‘ ہر دو عالم سے صدائے ساز آتی تھی انہیں‘ انہیں اپنی ذہانت‘ مقبولیت پر ناز تھا، ایسا ناز کہ ملکہ ہند نورجہاں کو کیا رہا ہو گا،حسن و دلکشی ‘ ناز‘ انداز‘ نازکی، حاضر جوابی‘شاعری‘ دلوں پر راج کا اجارہ آخر آخر اس کے مزار پر لکھا ہے’’ بر مزار ماغریباں نے چراغ نے گُلے۔نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے‘ نورجہاں رہی نہ جہانگیر رہا۔ پچھلے دنوں ہمارے یہاں ایک صاحب عالم تھے‘ جنہیں جہانگیری و جہاں بانی کا دعویٰ تھا۔دنوں پہلے وہ سیر عالم کو چلے۔سنا ہے سیر سے سیر ہو کر لوٹ آئے ہیں مگر ان کے آنے کی کانوں کان خبر کسی کو نہیں ہوئی۔یوں پردے میں ہیں جوں اورنگ زیب نے شاہ جہاں کو ’’بند‘‘ کر رکھا ہو مگر ان کا داراشکوہ تخت نشین ہے‘ پھر یہ چھپنے‘ چھپانے کا کھیل کیسا؟ آپ تو کہا کرتے تھے بھلے اپنے من پسند مگر نام نہاد دانشوروں کی محفل میں ہی سہی کہ پاکستان بھر کے سیاستدانوں کی مجموعی مقبولیت کے مقابلے عوام میں ان کی پذیرائی بے حد و حساب ہے۔ پاکستانی عوام اپنے محبوب جنگ جو سالار کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار ہوئی جاتی ہے‘ ان کے قرار کی کوئی سبیل نکالیں نہ سہی لبرٹی مارکیٹ شاہی قلعے کے جھروکے سے سہی ‘ پیاسی نگاہوں کی کچھ تو پیاس بجھے‘ آخر وہ آٹھ مہینوں سے رونمائی کے منتظر ہیں۔ ان دنوں آپ کی یاد اور بھی ستانے لگی ہے یوں کہ آپ کی پسندیدہ تصنیف سائفر کا نیا ایڈیشن مارکیٹ ہوا ہے۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار بیٹھے ہیں‘ اس پر تبصرے کئے جا رہے ہیں مضامین باندھے جا رہے ۔افسانے تراشے جا رہے ہیں‘ اس ایک ’’سائفر‘‘ مراسلے نے کیا کیا ناموروں کو بدنام کیا ہے۔ لوگوں کے بھرم کھل گئے، پردے اتر گئے ‘ نقاب نوچے اور میک اپ دھل کے اصل چہرے سامنے آ گئے۔ ’’اس طرف بھی آدمی ہیں اس طرف بھی آدمی۔ ان کے جوتوں پر چمک ہے ان کے چہروں پر نہیں‘‘ سائفر ایک شکنجہ ہے جو انہوں نے تب کے وزیر اعظم خاں کے لئے امریکہ سے درآمد کیا تھا۔’’خاں تو صاف بچ کے نکل گیا‘ اب اس پھندے میں ان کی گردن پھنسی ہے تو تمہیں کیا؟ نخچیرکے تڑپنے‘ پھڑکنے کا بھی اک نظارہ ہے اس سے لطف اندوز ہوں۔جلدی کیا ہے؟ انتظار کیجیے‘ سرسوں تلی پر نہیں جمتی‘ آپ بھی جلدی نہ کیجیے کچھ منصوبے زمین پر بنتے ہیں حالانکہ اصل منصوبہ آسمانوں پر بہت پہلے بنایا جا چکا ہے‘ آسمانی فیصلے کو ہی برسر کار آنا ہے۔ سہج پکے سو میٹھا ہو‘ موت کسی کے لئے بھی دلکش نہیں ہوتی مگر میدان جنگ میں سب سے بڑے دشمن کا سر‘ پرامن معاشرے میں بے گناہ مقتول کے ورثاء کے لئے قاتل کا پھانسی پر لٹکا ہوا جسم‘ قصور سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے احمد رضا قصوری کی دشمنی میں ان کے والد نواب احمد خان قصوری کا قتل‘ مقتول کی ایف آئی آر سیل کر دی گئی تھی اگر بھٹو صاحب کا تکبر اور تکبر کی وجہ سے آنکھوں پر پردہ نہ ڈال دیا جاتا اور وہ اسی وقت اس کی تفتیش اور مقدمہ کا سامنا کرتے تو وہ مقدمہ ابتدائی سماعت میں ختم ہو گیا ہوتا لیکن آسمانی منصوبہ یہی تھا کہ زمینی حکمران کے خلاف فیصلہ اس کی حکمرانی ختم ہونے پر کیا جائے‘جب دونوں پلڑے برابر ہوں چنانچہ پلڑا فیصلے کے وقت مقتول کے حق میں جھک گیا تھا اور زمینی منصوبہ ساز؟ سائفر اور اس کے منصوبہ ساز معمولی لوگ نہیں تھے پاکستان‘ پاکستانی قوم اور عالم اسلام پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان کو چند دنوں میں برسوں نہیں بلکہ کئی عشروں تک پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ اس کے برے نتائج کسی ایک فرد، چند افراد پر نہیں بلکہ پوری قوم بلکہ ملت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔یہ بات مصلحت کے خلاف کہ ان لوگوں کے خلاف انہی کے عہد جبر میں فیصلے کا ڈول ڈالا جائے۔صدر پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے پاس درخواست کر چکے ہیں کہ اس پر اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایا جائے۔سپریم کورٹ نے ایسا کرنے سے انکار نہیں کیا‘ انہیں بھی مناسب وقت اور مناسب ماحول کا انتظار ہے چنانچہ قوم کو بھی تھوڑی مدت کے لئے صبر اور ثابت قدم رہنا ہے‘ اسی میں سب کے لئے بہتری اور کامیابی کا راز ہے ۔آج سے کوئی نصف صدی پہلے کالج کے زمانے میں ایک دوگانا سنا تھا‘ دلکش آوازوں میں پرکشش اور چنچل ایک آواز‘ ہم آپ کو خوابوں میں لا لا کے ستائیں گے۔دوسری آواز‘ ہم آپ کی آنکھوں سے نیندیں ہی اڑا دیں تو؟ پہلی آواز‘ ہم آپ کے قدموں میں گر جائیں گے غش کھا کر۔دوسری آواز‘ اس پہ بھی نہ ہم اپنے آنچل کی ہوا دیں تو؟سائفر جو اعلیٰ ترین عدلیہ محفوظ ہاتھوں میں لے چکی تھی۔اس کے مضروب عمران خاں نے ذکر کرنا چھوڑ دیا تھا تو کسی ’’دوست نما‘‘ نے مشورہ دیا کہ وہ اب بھی زماں پارک میں چین کی نیندوں میں ہے‘ سائفر کو اس کے خوابوں میں لا کے ستایا جائے‘ پھر ہوا کیا؟ اپنی ہی آنکھوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں ’’ہمارے قمر جاوید باجوہ‘‘ صاحب نے چپ‘ چپیتے‘ چھپتے ‘ چھپاتے پاکستان میں قدم رکھا تھا‘ ادھر سے یار لوگوں نے سائفر کا بھونپو کھول دیا۔اپنی گرہ ڈھیلی کر کے ملکوں ملکوں گھوم آئے‘ سارا عالم چھان مارا۔ نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی؟ گوشہ عافیت کی تلاش میں دنیا کی اس نکرے پہنچ گئے جہاں بندہ نہ بندے دی ذات ہووے‘ اس نکڑ پر بھی ابھی بوریا نہ ہوا تھا زہری فطرت کے بچھو اور سانپ رینگنے لگے‘ زہریلے سانپوں کے منہ سے سائفر کا زہر ابل رہا تھا یہیں پر بس نہیں ہوا‘ گلیوں بازاروں میں اعلان ہو نے لگا‘ کپتان ساڑھے آٹھ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔اب چین کہاں؟ آرام کہاں؟ لمبے سفر سے بدن چور ،قوم سے خطاب کا سن کر اب چین کہاں‘ آرام کہاں‘ دیر کرتے کرتے آدھی رات ہونے کو آئی‘ خطاب کے بعد سوچتا ہوں دنیا گھوم لی‘ جائے امان نہیں ملی اب جائوں تو جائوں کہاں تم ہی کہو؟ ٭٭٭٭٭