2014اورپھر2018میںمودی کے برسراقتدارآنے کے بعدبھارت کھلے عام ہمہ جہت اسرائیلی طرز عمل اختیار کرچکا ہے ۔ان دس برسوں کے دوران بھارت کے مسلمان بڑے کرب والم سے دوچار ہیں۔مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتحال تو سب پرعیاں ہے کہ اسے تومکمل طورپرفلسطین جیسا بنادیا گیاہے ۔ 18نومبر 2023 ہفتے کوبھارتی ریاست اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں بتایاگیاکہ اترپردیش میں حلال سرٹیفکیٹ والی ادویات سمیت دیگر مصنوعات کے ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، خرید و فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے والے فرد یا کمپنی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔جب سے آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ ب بنے ہیں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سری رام سینے سمیت متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم لیکر پوری شدت کے ساتھ میدان میں آگئی ہیں۔اس مہم کادہلی کی حکومت نے بھرپور ساتھ دیااور 2022میں بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے ان تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے حلال اشیاء کے استعمال کو اقتصادی جہاد قرار دیا تھا۔روی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''حلال ایک اقتصادی جہاد ہے۔2022میں ہی آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ اوگاڑی یا سال نو کے تہوار کے موقع پر مسلمان قصابوں سے حلال گوشت نہ خریدیں۔ اوگاڑی کا تہوار بہار میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہندو بڑی مقدار میں بالخصوص بکرے کا گوشت استعمال کرتے ہیں، جو عام طور پر مسلمانوں کی دکانوں پر دستیاب ہوتا ہے۔ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ریاستی ترجمان موہن گوڑا نے مسلمانوں کے خلا ف مہم کو ہوا دیتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ حلال گوشت فروخت کرنے والے مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کریں۔بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی کا کہنا تھا،کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حلال مصنوعات کے فروخت سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں کیا جا رہا ہے۔ حلال مصنوعات خریدنا ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کے مترادف ہے۔ اترپردیش میں فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری انیتا سنگھ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیاجس میں کہاگیاکہ ڈیری مصنوعات، چینی، بیکری کی اشیائ، پیپرمنٹ آئل، خوردنی تیل اور نمکین اشیا پر حلال سرٹیفیکیشن کا ذکر کیا جاتا ہے ان سب اشیاء پرپابندی عائد ہے ۔نوتیفکیشن میں کہاگیاکہ کھانے کی مصنوعات پر حلال سرٹیفیکیشن مذکورہ قوانین کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف ہے اور یہ کھانے کے معیار کے حوالے سے ابہام پیدا کرتا ہے۔ ہندوبنیاکی چال دیکھ لیں کہ اسی حکومت نے جس نے اتر پردیش میں حلال اشیاء پر پابندی عائد کردی ہے ، اپنے اعلان میں ان حلال اشیا کو اس پابندی سے الگ رکھا ہے، جنہیں بیرون ملک سے درآمد کر کے بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ان پر پہلے سے ہی حلال کا لیبل لگا ہوا ہے۔ ادھر8نومبر2023کوبھارتی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ کے میونسپل بورڈ نے علی گڑھ کا نام تبدیل کر کے ہری گڑھ نے کی ایک قرارداد منظور کی ہے۔ یہ قرار داد اب حتمی منظوری کے لیے بی جے پی کی ریاستی حکومت کے پاس بھیبجی جا رہی ہے۔ قرارداد کی بورڈ سے منظوری کے بعد شہرکے بی جے پی میئر پرشانت سنگھل کاکہناتھا کہ شہر کا نام بدل کر ہری گڑھ کرنے کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھاجوہندوؤں کے دیوتا بھگوان کرشن کا ایک نام ہے۔بی جے پی کے ایک لیڈرنیرج شرما نے علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ کرنے کے لیے ایک عرصے سے مہم چلا رکھی تھی۔اس کاکہناتھاکہ نام بدلنے کی قرارداد منظور ہوناہمارے تہذیب و تمدن اور ہندو روایات کی ترویج کاکھلااظہار ہے۔ بھارت میںکئی شہروں،شاہراہوں،تاریخی عمارات اور قصبوں کے نام بدلے جارہے ہیں جن کے مسلم ناموں سے لاحقے ہیں۔چنانچہ ریاست ہریانہ میں چند دیہات کے نام بھی بدل دیے گئے ہیں۔ مہاراشٹر میں اورنگزیب کے نام سے منسوب اورنگ آباد کا نام چھترپتی سمبھاجی اور عثمان آباد کا نام دھارا شیو رکھ دیا گیا ہے۔ مغربی اتر پردیش کا شہرعلی گڑھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کا نام علی گڑھ شہر کے نام پر رکھا گیا تھا۔اصل ہدف تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جوہندوفاشزم کی زد میں رہی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو انیسویں صدی میں سر سید احمد خان نے قائم کیا تھا۔ 1857 کی بغاوت کے بعد انڈیا پر انگریزوں کے مکمل تسلط کے بعد سامراجی حکومت نے بغاوت کی پاداش میں اتر پردیش، دلی اور اس کے نواحی علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی دے دی تھی اور ان کی جاگیریں وغیرہ ضبط کر لی گئی تھیں۔یہ ایک تغیر کا دور تھا، مسلمان جدید تعلیم کی مخالفت کر رہے تھے۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کی تحریک چلائی۔ اسی تحریک کے تحت انھوں نے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقے کی جدید تعلیم کے لیے 1875 میں علی گڑھ میں اینگلو محمڈن اورینٹل کالج کھولا جو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور شہر مسلمانوں کی سیاست، ثقافت اور نفسیات کا ایک اہم مرکز رہے ہیں۔اس یونیورسٹی نے انگریزکے خلاف برصغیرکی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھااور جب تحریک قیام پاکستان شروع ہوئی تو اس وقت میں بھی اس یونیورسٹی کا اہم کردار رہا ہے۔