بھارتی مسلمان کس کرب و الم کے شکار ہیں اوروہ متعصب ہندئووںکے رحم کرم پر ہیں اس کااحاطہ کرنے پرقلم اورکالم کی سانسیں رک جاتی ہیں۔بھارتی مسلمانوں کی کسمپرسی کااندازہ آپ اس امر سے بآسانی لگاسکتے ہیںکہ بھارت کی پارلیمان کی بلڈنگ تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس نئے ایوان میں بیٹھے ہوئے اراکین کی مسلمانان بھارت کے حوالے سے سوچ اور انداز فکر و عمل بھی یکسربدل چکاہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان رمیش بھدوڑی نے مسلمان رکن کنور دانش علی کے خلاف بدزبانی کی تو بی جے پی اراکین پارلیمان ہرش وردھن اور روی شنکر پرشاد نے اس پرزوردارقہقہ لگاکر اس کی تائید ووتوثیق کردی اور ایوان میں بیٹھے بھارتی حکومت کے تین بڑے عہدے داروں مودی ، امیت شاہ اور راج ناتھ سنگھ نے بھی اس پر سکوت اختیار کر کے اس کی تائید کر دی۔ بی جے پی کے رکن رمیش بدھوری کی ایک مسلمان رکن پارلیمان کے خلاف گندی اوربازاری زبان استعمال کرکے یہ دکھا نابھی مقصودومطلوب تھا کہ بھارت کی نئی پارلیمان میںپارلیمانی زبان کے بجائے سب وشم ،اہانت،توہین اوربے عزتی کی زبان چلے گی، نیز اقلیتوں کے کسی رکن کی اس پارلیمان میں کیا حیثیت ہوگی اسے بھی واضح کر دیا ہے ۔ایک مسلمان رکن پارلیمان کے خلاف توہین آمیززبان استعمال کے تاروپوداس تقریب کے ساتھ گندھے ہوئے نظر آرہے تھے کہ جواس بھارت کی پارلیمان کی اس نئی عمارت کے وقت منعقد کی گئی تھی۔ ہم یہ امر کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب28 مئی 2023اتوارکومودی نے بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کاافتتاح کیاتواس عمارت پر بڑے حجم کاایک نقشہ آویزاں کیا گیا تھا، جس پر’’اکھنڈ بھارت‘‘لکھاہواتھا،اس نقشے میں پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیاتھا ۔ بنیادی طورپریہ نقشہ آر ایس ایس کے نظریئے کے خدوخال کی نقش کاری تھی جس کامطلوب ومقصودمیں ایشیامیں ایک ہندو ملک کی علامت اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا اظہارعلیٰ الاعلان اظہار تھا۔ مودی نے بھارت کی پارلیمان کی نئی عمارت کاافتتاح کرتے وقت مودی نے بھارت کے بڑے مندروںکے پجاری کومدعو کیاتھاجن کے ہاتھوں مودی نے سینگول کو قبول کیا اور اسے پارلیمنٹ میں نصب کیا، اس سے دنیا کو یہ بتا دیا گیا کہ ہندوستانی ریاست کا بنیادی کردار اب باقاعدہ ہندو شائونزم ہے۔مودی نے عملی طورپر اس بات کا اعلان کیاکہ سب جان لیں کہ یہ سنگھی بریگیڈ،یاہندوتوایعنی آرایس ایس ،بی جے پی اوران سے جڑی تمام ذیلی تنظیموں کے سپنوں کی تعبیرہے کہ ہندوراشٹرہندو نظریات پر مبنی ہے، سب باخبررہیںکہ اب کسی کو ملک کے ہندو راشٹر ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ دنیاکویہ پیغام دیاگیاکہ اب بھارت باقاعدہ طورپر ایک ہندو راشٹر ہے۔ پوری تقریب کھل کر یہ اعلان کر رہی تھی کہ ہندوستان میں سرکاری سطح پر سوائے ہندو عقائد کے باقی سب عقائد تیسرے درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نام نہادجمہوریت کے اسی نئے ایوان میں مسلمان رکن پارلیمنٹ کے لئے انتہائی گندی اور بے حد گھٹیازبان استعمال کر کے مودی حکومت کے رکن بھدوڑی نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کے خلاف سنگھیوں ’’آرایس ایس اوربی جے پی ‘‘کو گالی گلوچ کے گھنائونے فعل کالائسنس دیا جا چکا ہے۔ لیکن کوئی یہ سمجھے کہ س تو ہین کاہدف صرف مسلمان کوہی بنناپڑے گانہیں، بلکہ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔ سکھ، عیسائی، بودھ، دلت اور قبائلی جماعتوں سے آئے ہوئے ممبران پارلیمان بھی اس کاہدف ہیں۔ یہ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی اوران کی تمام ذیلی تنظیموں جن کا مخفف ’’سنگھ پریوار‘‘ ہے کے مائینڈ سیٹ کا مظاہرہ ہے ۔سنگھیوں کے اسی مائینڈ سیٹ کے حوالے سے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت باربارکہتاہے کہ ’ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے۔سنگھیوں کے بڑوں کو پڑھنے والوں کے لئے اس میں کوئی تعجب اورحیرانی نہیں ہوگی کیونکہ ان کی تعلیم اورتربیت اس نہج کی ہے ۔سنگھی تنظیمیں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ یاآرایس ایس،بھارتیہ جنتاپارٹی یابی جے پی، وشوا ہندو پریشاد، شیو سینا، ہندو سینا، ہندو جناجاگرتی سمیتی،ہندو مہاسبھا، ککبھوسوندی انقلابی فورم اور اکھنڈ ہندوستان مورچہ‘‘ نے تو اپنا تنظیمی نام ہی اس اصطلاح کو بنایا ہوا ہے کہ بھارت میں رہناہوگا توجے شری کہناہوگا۔ملعون نوپور شرما ٹیلی ویژن پر اپنے چہرے پرکالک ملتے ہوئے اسلام کی مقدس ہستیوں کی اہانت کی مرتکب ہوتی ہے اور ذلت و رسوائی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے۔سنگھی سکول ٹیچر ترپتا تیاگی ہندو طلبا ء سے ایک مسلم طالب علم کو پٹواتی ہے۔ملعون نرسنگھا نند مسلمانوں کے نسل کشی کے لیے اکساتا ہے ۔ملعون غنڈہ مانیسر گائے کے نام پر جنید اور ناصر کا قتل کرواتا ہے۔ٹرین کے اندر چیتن سنگھ نام کا درندہ صفت پولیس حوالدار اپنی پستول سے تین مسلم مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ 2002کے گجرات میں مسلم کش فسادات ، بابری مسجدکی شہادت اس صدیوںسے قائم مسجد کی بنیادپرمندرکی تعمیر،حالیہ ایام میںدہلی کے مسلم کش فسادات،تعلیمی اداروںمیں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کیاجانا،گائے کی ذبیحہ پرمسلمان کوذبح کیاجانا ،لوجہاد کاشوشہ کھڑا کرکے اس کے مقابلے کے لئے مسلمان بچیوں کومرتد بنانا،مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تحریک تبلیغی جماعت کوکورونابم قراردینا،کھلے میدانوں میں مسلمانوں کوعید کی نمازسے ممانعت کیا جانا، مسجدوں میں اذان پرپابندی لگانا،تراویح کے دوران مسجدوں میں گھس کر نمازیوں کی مارپیٹ کرنا،جمعہ کے بڑے اجتماعات کے دوران مسجد کے سامنے سڑکوں پر صفیں بچھاکر نمازجمعہ کی ادائیگی سے روکنا، مسلمانوںسے جے شری رام کہلوانا اور سوریانمسکارکروانا،صوبوں اورشہروں،شاہراہوں اورتاریخی عمارات سے مسلمان لاحقے ختم کر کے ان کاہندونام رکھنا،تاریخ بدلانے کی دھمکیاں دینایہ سب کیاہے، یہ ہندوتوا نظریے کی کھلم کھلا ترویج اور ترجیح کے مظاہرہیں۔ یہ سب سنگھ پریوار کے ڈی این اے کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ان تمام شرمناک اورمذموم اقدامات کے پیچھے نفرت کی وہ آگ کارفرما ہے کہ جوبھارت میں صدیوںسے جلتی رہی اور اب مسلمانان بھارت اس آگ کے شعلوں کی نذر کئے جاچکے ہیں جوان کی جان ومال کو بھسم کررہی ہے ۔