اکادمی ادبیات پاکستان کی تین روزہ عالمی ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے 30 اکتوبر کی دوپہر اسلام آباد پہنچا‘پہلا قیام اکادمی کے رائٹرز ہائوس میں تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ سرکاری سرپرستی میں ’بچوں کے ادب‘ پر عالمی کانفرنس سجائی جا رہی تھی جس پر اکادمی داد کی مستحق ہے۔کانفرنس کی افتتاحی تقریب 31 اکتوبر سہ پہر تین بجے تھی مگر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ 30 اکتوبر سے ہی شروع ہو گیا۔پاکستان کے پانچوں صوبوں سمیت دنیا کے 13 ممالک سے بچوں کے ادیب اور نامور اسکالرز مدعو کیے گئے تھے‘ کانفرنس کے تینوں روز درجنوں اہم ادیبوں اور رسائل ِ اطفال کے مدیران سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔اس کانفرنس کو بیس سے زائد سیشنز پر تقسیم کیا گیا تھا‘کچھ سیشن متوازی بھی چلائے گئے تاکہ کم وقت میں زیادہ لوگوں کو سنا جا سکے۔سیشن کے موضوعات سے لے کر سپیکرز تک‘انتخاب اس قدر اعلیٰ تھا کہ ہر موضوع اور مہمان کی گفتگو پر الگ سے کالم لکھا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد پہنچتے ہی سفر کی تکان اتاری اور دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جار ی ہو گیا،جڑواں شہروں سے درجنوں دوست مختلف اوقات میں ملاقات کے لیے تشریف لائے،سب کا ممنون ہوں۔ 31 اکتوبر دن دو بجے افتتاحی سیشن تھا جس کی صدارت مشیر برائے وزیر اعظم قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں سنیٹر عرفان صدیقی اور وفاقی سیکرٹری فارینہ مظہر تھے،کلیدی خطبہ محمود شام نے پیش کیا جبکہ امجد اسلام امجد نے بھی اظہارِ خیال کیا۔افتتاحی سیشن میں سب سے اہم گفتگو محمود شام کی تھی جنھوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے کئی اہم تجاویز دیں۔کئی تجاویز تو راقم گزشتہ کالم میں پیش بھی کر چکا کہ پاکستان میں بچوں کے حوالے سے لکھا جانے والا ادب ہمیشہ نظر انداز کیا گیا‘بچوں کے ادیبوں کو آج تک قومی دھارے میں شامل نہیں گیا۔سرکاری سطح پر دیے جانے والے قومی ایوارڈز میں کبھی بچوں کے ادیب شامل نہیں رہے‘بچوں کے لیے کئی اہم ناول لکھے گئے مگر آج تک کوئی ناول بھی کسی قومی سطح کے مقابلے میں شامل نہیں کیا گیا‘کراچی‘لاہور اور اسلام آباد سمیت کئی اہم شہروں میں ادبی میلے ‘کانفرنسیں اور فیسٹولز منعقد ہوتے ہیں مگر کہیں بھی رسائل ِ اطفال کا کوئی ادیب یا مدیر مدعو نہیں کیا جاتا‘جو ننھے قلم کار لکھنے کا شوق رکھتے ہیں‘انھیں کبھی کسی سینئر ادیب یا بڑے ادبی ادارے کی سرپرستی نہیں ملی‘ایسا کیوں ہے اور آخر کیا وجہ ہے کہ بچوں کا ادیب ہونا بے معنی ہو چکا؟ کلیدی خطبے میں ایسے کئی سوالات اور تجاویز حکومت کو پیش کی گئیں‘اس کانفرنس کے ذریعے حکومت کو احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ بچوں کا ادب کسی بھی معاشرے کی تربیت اور ذہنی نشونما میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔اردو کے کئی اہم ادیبوں نے لکھنے کا آغاز بچوں کے رسائل سے کیا‘بچوں کی ذہنی و جسمانی تربیت میں جہاں سکولوں میں ہونے والے ہفت روزہ بزمِ ادب نے اہم کردار ادا کیا‘وہاں نانی اماں اور دادی ماں کی سنائی ہوئی کہانیاں بھی بچے کی ذہنی و علمی تربیت میں اہم رہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ پہلے تعلیمی اداروں سے بزم ِ ادب کی چھٹی کروائی گئی اور پھر بچوں کو دادی اور نانی کی کہانیوں کی بجائے موبائل فون اور ٹیب تھما دیا گیا،اب بچے ہوں یا ان کے والدین‘وہ کھانے کے دوران بھی اپنے اپنے موبائل فونز میں گم ہوتے ہیں۔ایسی صورت حال میں بچوں کو کتاب اور رسائل سے کیسے جوڑا جائے اور معاشرے میں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟اس طرح کے مزید کئی اہم موضوعات اس کانفرنس میں زیربحث رہے۔ کانفرنس کے مندوبین کو فرسٹ کلاس گیسٹ ہائوسز اور ہوٹلز میں قیام دیا گیا‘ان کے لیے کھانے اور آمد و رفت کو آسان بنایا گیا‘درجنوں مندوبین کو جہازوں کے ٹکٹس تک دیے گئے‘مناسب اعزازیہ بھی پیش کیا گیا‘کانفرنس بیگ اور سرٹیفکیٹس بھی پیش کیے گئے‘اکادمی کی شائع شدہ کتب بھی تحفے کے طور پر مندوبین کو زادِ سفر میں دی گئیں،یہ سارے انتظامات دیکھ کر جی خوش ہوا۔اس کا کریڈٹ ڈاکٹر یوسف خشک کو جاتا ہی ہے مگر اختر رضا سلیمی‘امیر نواز سولنگی‘ملک محمد مہر اورڈاکٹر ریاض عادل کی محنت قابل ِ داد تھی‘جس احسن انداز میں یہ تین روزہ ادبی میلہ جاری رہا اور مہمانوں کو عزت دی گئی‘ناقابل ِ فراموش ہے۔کانفرنسیں پاکستان میں آئے روز ہوتی ہے‘زیادہ تر کانفرنسوں اور فیسٹولز کے مندوبین تبدیل نہیں ہوتے، یعنی ایک سے رہتے ہیں ،اکادمی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس دفعہ بھی یونیورسٹیوں کے نئے اسکالرز کو خوش آمدید کہا‘نئے قلم کاروں اور محققین کو پلیٹ فارم فراہم کیا‘ان سے اہم موضوعات پر تحقیقی مقالہ جات لکھوائے گئے اور انھیں عالمی کانفرنس میں 13 ممالک کے مندوبین کے سامنے اپنے مقالہ جات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔اس کانفرنس کی سب سے اہم بات کہ ملک بھر سے شائع ہونے والے رسائل اطفال کے مدیران کو بھی ایک پیج پر اکٹھا کیا گیا‘ان سے رسائل اطفال کے اجراء میں پیش آنے والے مسائل پوچھے گئے‘ان سے تجاویز بھی لی گئیں کہ رسائل اطفال کو مزید بہتر بنانے اور بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے حکومت اور اکادمی ادبیات کو کون سے اقدامات اٹھانے ہوں گے؟اس کانفرنس میں یہ بات بھی زیر غور رہی کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی بچوں کے ادب پر کانفرنسیں اور سیمینارز رکھے جائیں اس موضوع کی اہمیت واضح کی جا سکے۔لاہور میں گزشتہ پانچ سال سے یہ خدمت تنہا شعیب مرزا کر رہے ہیں‘وہ ماہنامہ پھول کے مدیر ہیں اور ہر سال بچوں کے ادب پر کانفرنس بھی رکھتے ہیں اور ملک بھر سے بچوں کے ادیبوں کو ان کی کتب پر ایوارڈز سے نوازتے ہیں‘یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔خوشی کی بات ہے کہ اب حکومت اور اکادمی نے بھی اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا‘دائرہ علم و ادب نے تعاون کیا اور یہ کانفرنس منعقد ہو پائی۔امید ہے یہ کانفرنس مدتوں یاد رہے گی اور اکادمی اس روایت کو جاری رکھے گی تاکہ بچوں کے ادیبوں کے پاس بھی قومی پلیٹ فارم موجود ہو۔