8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں مہنگائی سب سے اہم موضوع ہوسکتی ہے۔ سیاست کے پرانے کھلاڑی اس موضوع پر نئے جال بچھائیں گے مگر اس جال میں پھنسنے والے پرانے شکار اس مرتبہ جھانسے میں آنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ کوئی کچھ کہے، گلے شکوے کرے مگر زمینی حقائق اس اٹل حقیقت کے گواہ ہیں کہ عوام کا شعور اس کو تیور بدلنے پر مجبور کر چکا ہے۔ عوام کے بدلے ہوئے مزاج نے سب کو حیران و پریشاں کر رکھا ہے، یہ پریشانی ویسے بلاجواز نہیں۔ میدان میں موجود دو کنگز پارٹیاں عوامی حمایت سے محروم ہیں اور کوئی بیانیہ کارگر ثابت نہیں ہوسکا، اوپر سے مہنگائی کا سرکش اور بے لگام طوفان سب کچھ ڈھاتا چلا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس طبقہ محض چند فیصد باقی رہ چکا ہے، جس کی بقا زیادہ عرصہ ممکن نہیں۔ ایک ہفتے کے دوران ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ سامنے آیا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 29.8 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، ادارہ بیورو شماریات کی ملک میں مہنگائی سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.73 فیصد اضافہ ہوا جبکہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 29.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ہفتے میں ٹماٹر 15.4 فیصد اور آلو 4.5 فیصد مہنگا ہوا، آٹا 2.4 فیصد، لہسن 2.1 فیصد، نمک 1.8 فیصد، مرغی 1.6 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے گڑ، گھی، چاول اور دالوں کی قیمت میں معمولی کمی ہوئی۔ادارہ شماریات کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایک ہفتے میں 20 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور 8 کی قیمت میں کمی ہوئی جبکہ 23 اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اخراجات اور آمدن میں توازن کا سوچنا تک چھوڑ چکے ہیں۔ ہماری حکومتوں اور سرکاری محکموں کے اخراجات کا سرا بوجھ عام آدمی پر منتقل کیا جاتا ہے اور اب عوام کے صبر کا پیمانہ نہ صرف لبریز ہوچکا ہے بلکہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوچکا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی اس بابت ایک رپورٹ جس میں وفاقی حکومت کے قرض کی تفصیلات جاری کی گئیں ہیں، اس رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کا قرض ستمبر 2023 تک 62 ہزار 291 ارب روپے ہوگیا ہے، وفاقی حکومت نے جولائی سے ستمبر 2023ء کے دوران 1450 ارب روپے قرض لیا، وفاقی حکومت کا قرض ستمبر 2023ء تک 62 ہزار 291 ارب روپے رہا۔سٹیٹ بینک کے مطابق ستمبر 2023ء تک حکومت کا مقامی قرض 39 ہزار 697 ارب روپے جبکہ بیرونی قرض 22 ہزار 593 ارب روپے رہا۔سٹیٹ بینک کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ اکتوبر میں بینکوں نے 40 ارب روپے قرض دیے، اسی ماہ تک بینکوں کے قرضوں کا حجم 11 ہزار 897 ارب روپے رہا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اکتوبر میں بینکوں کی سرمایہ کاری کا حجم 610 ارب روپے رہا جبکہ اکتوبر تک سرمایہ کاری کا حجم 23 ہزار 232 ارب روپے رہا۔ اس کے علاوہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں3.17 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی سروسنگ پرخرچ ہوئے۔ جولائی سے ستمبر 2023 کے دوران 2.017 ارب ڈالر قرضوں کے اصل پر خرچ ہوئے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی سے ستمبر 2023ء کے دوران 1.157 ارب ڈالر قرضوں کے سود ادائیگی پر خرچ ہوئے، ابھی وطن عزیز میں نگران حکومت ہے۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ کو چاروں صوبوں کی نگران اور وفاقی حکومتوں کے اخراجات پر خصوصی ریویو اجلاس منعقد کرنا چائیے۔ سابق پی ڈی ایم سرکار نے اپنے آخری اجلاس میں 77 کے قریب بل پاس کیے تھے، جن میں سے بیشتر بل نگران حکومت کے اختیارات میں اضافوں سے متعلق تھے لیکن نگران حکومت کس جواز کے تحت غیر ضروری یعنی ایسے ترقیاتی منصوبے جن کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت نہیں ہے، ان کیلئے فنڈز استعمال کر سکتی ہے۔ حیرت اوپر سے اس بات پر ہے کہ ان کی تشہیر سے دریغ بھی نہیں کیا جاتا، خیر اس بحث سے کیا حاصل؟ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!!! سینٹ کے فلور سے بھی اس ضمن میں کوئی آواز نہ آنا، ہمارے پارلیمانی نظام جمہوریت کی فعالیت پر متعدد سوالات کا متقاضی ہے۔ خیر آئندہ قائم ہونے والی منتخب حکومتوں کو حقیقی معنوں میں اپنے اخراجات میں اعتدال لانا ہوگا، کب تک ہم قرضے لے کے کبھی قرضوں کی اقساط ادا کرتے رہیں گے تو کبھی زور زبردستی معاملات ریاست کو رواں دواں رکھیں گے۔ پاکستان کو اللہ رب العزت نے کثیر معدنیات سے نواز رکھا ہے، ریکوڈک اس کی عام فہم مثال ہے، کوئلے کے ذخاظر، کوسٹل ہائی وے، سی پیک اور محل و وقوع کے اعتبار سے مادر وطن کی جغرافیائی حیثیت جسے سٹریٹیجک حیثیت کے نام سے نمایاں طور پر پکارا جاتا ہے، ان سے استفادہ حاصل کرنا کیا کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل پوگا؟ کیا ان معدنیات کے ثمرات عوام سمیت سکے گی؟ افسوس بازار سیاست میں نعروں کی فروخت کے سوا کچھ نہیں! سیاست ہمارے ہاں چند طبقات کے ذوق و شوق، مصروفیت اور لوٹ مار کا نام بن چکی ہے، جس پر عوام کی غالب اکثریت کو اعتماد نہیں۔ خلق خدا روایتی سیاسی جماعتوں اور خانوادوں سے اک عرصہ ہوا بیزار ہے۔ عرصہ بعد پی ٹی آئی عوام کی معاملات سیاست میں مداخلت کا باعث بنی ہے اور حالات سب کے سامنے ہیں۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کا بھی سب کو علم ہے، ان انتخابات کی معروضیات عام پاکستانی کے شعور سے اوجھل نہیں، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں عوام کے شعور کی وسعتیں بہت گہری ہیں، گویا اب کی بار مہنگائی کے خاتمے کا چورن بکنے والا نہیں۔ کالم کے آخر میں ایک الھڑ گوار رکشے والے کا سوال پیش ہے، پوچھنے لگا: نواز شریف کے پاس معشیت کی مضبوطی کا کوئی فارمولا تھا تو اپنے کسی دور اقتدار میں آزمایا کیوں نا؟ پی ڈی ایم کے وزیراعظم اپنے بھائی شہباز شریف کو ہی بتا دیتے، پھر قہقہہ لگا کر بولا: "میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب۔۔۔۔۔۔۔۔ اْسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔