دنیا کی تاریخ میں ایسے فاشسٹ لیڈر آتے رہے ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے غیر معمولی اقدامات کرتے رہے ہیں۔ غیر معمولی مقبولیت بھی حاصل کرتے رہے ہیں‘ لیکن ان کا طرز سیاست‘ انا پرستی اور رویہ ان کے ملک کی تباہی کی صورت میں نکلتا رہا ہے۔ ایک ایسا لیڈر آیا جو اتنی خود پسندی کا شکار تھا۔ اسے یہ گمان تھا کہ اس سے بہر دنیا میں کوئی اور نہیں۔ اس نے اپنی قوم کی بدحالی کی وجہ غیر ملکی قوتوں کو دینا شروع کردیا۔ اور بیرونی مداخلت برداشت نہ کرنے کا نعرہ لگادیا اور دعویٰ کیا کہ اس کی قوم کا فخر مٹی میں ملادیا گیا ہے۔ ان کی معیشت تباہ و برباد کردی گئی اور ملک میں مختلف گروہ اور طاقتور قوتیں بیرونی قوتوں سے ملی ہوئی ہیں اور بیرونی قوتیں اپنے مفادات کیلئے ان پر سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ اس طرح اپنی پارٹی کو ایک برانڈ بنانے کیلئے اس نے ایک فورس پر کام شروع کردیا جو وفاداروں اور نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ اور وہ جو اس کی ہر بات پر لبیک کہنے کو تیار تھی۔ بنا یہ سوچے کہ وہ بات صحیح ہے یا غلط۔ اور ہوا بھی یہی کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس لیڈر کے حق میں سب کچھ کرنے پر آمادہ دکھائئی دیئے۔ اس کیلئے مارچ کرنے پر آمادہ ہوگئے اور یہ لیڈر جو کچھ عرصہ پہلے چند سو لوگوں کو بمشکل اکٹھا کرسکتا تھا اس نے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرنا شروع کردیا اور ان جلسوں میں خطاب کا ایسا انداز اپنایا کہ لوگ اسے نظر انداز نہ کرپائیں۔ وہ اپنی تقریروں میں عام لوگوں کو یقین دلاتا رہا کہ دولت ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے اور برسر اقتدار آکر اس دولت کو اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکال کر عوام کی حکمرانی قائم کی جائے گی۔ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ یومیہ اجرت کو بڑھایا جائے گا۔ کسانوں کو ان کی زمین دی جائے گی۔ صنعتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ قوم کی اخلاقیات کو زندہ کیا جائے گا۔ اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا جائے گا اور اس کے بعد اس لیڈر نے ایک ٹیم سلیکٹ کی جس کا مقصد بغیر کوئی سوال اٹھائے اسے آگے بڑھانا تھا۔ اس میں بڑے بڑے آرگنائزر شامل تھے جن کا کام پارٹی میں ریلیوں اور جلسوں کے تمامتر انتظامات کو دیکھنا تھا۔ اس میں سابق فوجی بھی شامل ہوگئے‘ جن کا کام مخالفین کی آواز دبانا تھی۔ اس کے بعد ملک کے امیر ترین لوگ بھی اس کے قریب آگئے اور انہوں نے اس پر سرمایہ کاری شروع کردی۔ اسے عوامی حمایت ملنا شروع ہوگئی۔ اسے بڑے بڑے سرمایہ کار ملنا شروع ہوگئے اور ایک بڑا حلقہ اس کے چاروں طرف جمع ہوگیا۔ اس میں مڈل کلاس‘ بزنس کمیونٹی بھی بتدریج شامل ہوتی گئی‘ لیکن اس لیڈر کو ایک ایسی ٹیم کی ضرورت تھی جو اس کے بیانیہ کو آگے بڑھائئے اور عوام کے ذہن نشین کردے اور اسے ایسے لوگ مل بھی گئے جو ایک وفادار کی طرح اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس کیلئے اس نے میڈیا کا استعمال کیا۔ اس کا ایک نیٹ ورک بنایا۔ اسے موثر انداز سے آپریشن کرنے کیلئے اس نے کئی پروفیشنلز کی خدمات حاصل کیں اور یہ طے کیا کہ ہر تقریر‘ ہر جلسے اور ہر مقام پر ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جائے۔ خواہ وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو‘ مگر اس بات پر زور دیا جائے۔ بار بار دیا جائے اور اتنی بار دہرایا جائے کہ جھوٹا پروپیگنڈہ بھی سچ لگنے لگے۔ دیکھتے دیکھتے ایک ہی قسم کا بیانیہ میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر دیا جاتا جس کی بناء پر لیڈر کے حمایتیوں کو ہی کیا اس کے مخالفین کو بھی اس کی باتیں یاد ہوگئیں۔ قرضوں میں ڈوبی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا وعدہ کرتا رہا دعویٰ کرتا رہا۔ مگر یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اس لیڈر کو اقتدار نہ ملا اور ایک دن اس لیڈر نے ملک کی اہم شاہراہوں پر مظاہرے شروع کردیئے۔ تشدد کا راستہ اختیار کرنا شروع کردیا اور یہ کارروائی اتنی بڑھی کہ ملک کا ایک سابق جرنیل بھی اس لیڈر کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ کیونکہ یہ لیڈر اس جرنیل سے یہ وعدہ کرچکا تھا کہ اس حکومت کا خاتمہ ہوگا تو وہ اسے اس ملک کی فوج کا سربراہ بنادے گا۔ مظاہروں اور پرتشدد کارروائیوں کے باوجد اس لیڈر کو اقتدار نہ ملا۔ اس وقت کی حکومت نے اس پر بے شمار مقدمات بنائے لیکن اس فاشسٹ لیڈر نے ہار نہیں مانی۔ لیکن اسے احساس ہوگیا تھا کہ اس کی قوم کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے‘ اس لئے صورتحال بدلی۔ پورا منظر بدل گیا۔ پھر ملک میں انتخابات ہوئے تو اس لیڈر کی پارٹی نے حیران کن طور پر 30 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرلئے۔ وہ تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں تو نہیں آیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایسا ماحول اور حالات پیدا کردیئے کہ یہ لیڈر مقبول ہوتا گیا اور پھر یہ لیڈر حکومت کا سربراہ بن گیا اور پھر اس لیڈر نے اپنے مفادات کیلئے قانونی‘ غیر قانونی اور اخلاقی اور غیر اخلاقی صحیح یا غلط اقدامات کرنے شروع کردیئے۔ اس نے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کئے‘ انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا۔ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ ان کے سرے سے خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ اظہار آزادی رائے پر قدغن لگائی گئی۔ ایسے قوانین بنائے گئے جس کے بعد سارے اختیارات اس کے ہاتھ میں آگئے۔ ایسے قانون منظور کرائے گئے جس میں اس کے تمام مخالفین کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ اور یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ صورتحال گھمبیر ہے۔ ملک مشکلات میں ہے اور اس سے نکالنے کیلئے وہی ایک انقلابی لیڈر ہے جو اس قوم کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائے گا۔ ایک ایسا ملک جو پستی میں چلا گیا تھا۔ پھر یہ وہ لیڈر آگے بڑھتا گیا۔ وہ اپنی قوم کا ہیرو بن گیا۔ لیکن وقت بدلا تو آج اس لیڈر کی کوئی اونر شپ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جس فاشسٹ لیڈر کی بات ہورہی ہے وہ مشہور زمانہ اوڈلف ہٹلر ہے جو 22 اپریل کو جب اسے اپنی شکست کا یقین ہوگیا تو اس نے ایک جذباتی انداز میں کہا۔ کہ اگر ہمیں شکست ہوئی تو ہتھیار ڈالنے کے بجائے میں خود کو گولی مار لوں گا اور پھر ہوا بھی یہی کہ اس نے ناکامی کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ خودکشی کرلی۔