1970ء کی دہائی تک ہمارا ملک زندگی کے تمام شعبوں میں عروج پر رہا پھر تمام شعبہ جات زوال کا شکار ہوئے۔ کرپشن نے تمام بڑے اداروں کی کار کردگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک دور تھا کہ رشوت جیسے قبیح فعل سے ہر کوئی بچ کر رہتا ، اکا دکا واقعات اگر ہو بھی جاتے تو رشوت خور کی معاشرے میں کوئی عزت نہ رہتی ۔صدر ایوب خان کے زمانہ اقتدار میں ہمارے ملک میں منگلا اور تربیلا ڈیم جب تعمیر کیے گئے تھے تو اُس وقت کرپشن کا ناسور اتنا نہیں پھیلا تھا جس کی وجہ سے یہ دونوں ڈیمز کم لاگت اور خالص میٹریل سے تعمیر کیے گئے۔ آج ہمارے ملک کی آبی ضروریات انہی ڈیموں سے پوری ہو رہی ہے۔ اگر اِن ڈیموں کے ساتھ اُس وقت کالا باغ ڈیم بھی تعمیر ہو جاتا تو آج ہمارا ملک ترقی کی رفتار میں بہت آگے ہوتی لیکن سیاسی مفادات کے تحت کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ اِس ڈیم کو متنازعہ بنانے میں سب سے زیادہ مخالفت سندھ کی طرف سے کی گئی حالانکہ کالا باغ ڈیم کے بن جانے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ ہی کو ہونا تھا ہمارے بر سرا قتدار کمزور سیاست دانوں کو کالا باغ ڈیم بنانے کی جرأت ہی نہ ہو سکی ۔میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہے اور اُنہیں کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے معروف بزرگ صحافی مجید نظامی (مرحوم) نے متعددمرتبہ زور دے کر کہا کہ ملک کی بقا کے لیے کا لا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کرا دو لیکن میاں نواز شریف کو ملک کی بقا کی بجائے اپنے اقتدار کے بقا کی فکر تھی اور وہ بھی اِس بڑے عظیم الشان منصوبے کو شروع نہ کر اسکے۔ پھر ایک سنہری موقع قدرت نے جنرل پرویز مشرف کو دیا لیکن وہ بھی ایسا نہ کر سکے اور یوں ہمارا ملک روز بروز زندگی کے تمام شعبوں میں زوال پذیر ہوتا گیا ۔آج ملک کی کمزور معاشی حالت نے قوم کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے ملک کی یہ صورتحال اچانک نہیں ہوئی بلکہ یہ ہماری اپنی نالائقیوں ، کرپشن ، میرٹ کی خلاف ورزیوں ، اقربا پروری اور انصاف کی فراہمی میں مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے ہوا چونکہ یہ ہماری بد قسمتی ہی سمجھ لیں کہ ہمیں دیانت دار سیاسی قیادت نہیں مل سکی ۔جو بھی آیا اُس نے اِس ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر بے دریغ لوٹا نہ اُسے خوف خدا ہوا نہ قبر یاد آئی اور نہ ہی کسی اور کا خوف ۔سیاست دانوں نے بیورو کریسی کو بے لگام رکھا اور بیورو کریسی سیاست دانوں کے ہر ناجائز کام کو جائز بنا کر اور اُسے قومی فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتی رہی۔ ترقیاتی کاموں کے فنڈز میںچوری اور پھر آگے بر سر اقتدار لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر ترقیاتی کاموں میں ناقص کوالٹی کا استعمال یہ سب طریقے ہمارے ملک میں ایجاد کردہ ہیں چونکہ الیکشن کے دوران سیاست دان دولت کا استعمال کر کے کامیابی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ سیاست کو عبادت سمجھ کر بر سرا قتدار آنے کے بعد گیارہ گنا زیادہ دولت وصول کرتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں چونکہ انجینئر کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ہائی وے ، بلڈنگ ، پبلک ہیلتھ ، انہا ر وغیرہ انجینئر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اِن محکمہ جات میںایکسین کا کردار انتہائی اہمت کا حامل ہوتا ہے ایکسئین ہی سیاہ سفید کا مالک ہوتا ہے اُس کے منظور نظر لوگوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں اور اُنہی کے خاص بندوں ہی کے بلز منظور ہوتے ہیں۔مقامی ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہونے کے بعد اِن تین بڑے محکمہ جات ہائی وے ، بلڈنگ اور پبلک ہیلتھ کے ایکسئین حضرات کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنی ترقیاتی سکیمیں منظور کرا کے اپنے علاقوں میں کام شروع کراتے ہیں ہمارے ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہائی وے کے ایکسئین ہوا کرتے تھے جو اب اِس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں وہ بر سرا قتدار لوگوں کے ساتھ دوستی بنانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے زیادہ ترلغاری اور کھوسہ سردار منتخب ہوتے اور ان کے اقتدار کے دنوں میںمرحوم اِن سرداروں کی گڈ بک میں ہوا کرتے تھے جبکہ اِن کے خاص آدمیوں کے ذریعے سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکہ جات دیئے جاتے تھے۔ اِسی طرح سے پبلک ہیلتھ نے 2011ء میں پورے شہر میں ناقص پائپ لائنیں ڈال کر پورے شہر کو تباہی کے دہانے پہنچایا تھا وہ آج تک یہاں کے شہریوں کو یاد ہے اُس زمانہ میں بچھائی گئی پائپ لائنوں کی سزا آج تک ڈیرہ غازی خان کے عوام کو مل رہی ہے کہ ہر دوسرے دن شہر کی کوئی نہ کوئی سڑک نیچے سے بیٹھ جاتی ہے اور پھر انتظامیہ اُس ٹکڑے کو ابھی ٹھیک کر رہی ہوتی ہے کہ دوسری طرف سے نیچے سے سیوریج لائن ٹوٹ جانے سے سڑک بیٹھ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ آج تک شہر میں جاری ہے چونکہ پبلک ہیلتھ والوں کو صرف اپنی فکرہوتی ہے وہ شہر کے لیے کوئی اچھا سا پلان دینے کو تیار نہیں ہوتے حالانکہ ڈیرہ غازی خان شہر کیلئے اوپن ڈرین منصوبہ ضروری ہے لیکن پبلک ہیلتھ کے انجینئر ایسا نہیں کرنے دیتے کیوں اِس منصوبے میں اُن کی ’’روز ی ‘‘نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں آج بھی انگریز دور کے نالے تمام بڑی سڑکوں کے ایک طرف گزر رہے ہیں۔ ہماری کمشنر ڈیرہ غازی خان سے اپیل ہے کہ اگرشہر کا سیوریج سسٹم ٹھیک رکھنا ہے تو یہان پر اوپن ڈرین سسٹم دوبارہ تعمیر کیا جائے کیونکہ انگریزوں نے بھی یہی سسٹم بنایا تھا جو 1910ء سے لے کر 1988ء تک پوری کامیابی سے چلتا رہا لہٰذا اِس سسٹم کو دوبارہ فعال کیا جائے۔