مگر اس سے بھی ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے ترکیہ کے نئے سیاسی منظر نامہ میںا یک اہم کردار یعنی ایک نئی اسلامسٹ سیاسی طاقت کا داخل ہونا ہے۔ ترکیہ کے سابق وزیر اعظم مرحوم نجم الدین اربکان کی رفاء پارٹی کو سبھی بھول چکے تھے۔ پچھلے سال ہی ان کے فرزند علی فتح اربکان نے اس کا احیاء کرکے اس کانام نو رفاء یا نیو ویلفیر پارٹی رکھ کر صدرارتی انتخابات میں ایردوان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ایردوان کو شاید ان کی اسلئے ضرورت پڑ گئی تھی، کیونکہ ترکیہ کی روایتی اسلام پسند سعادت پارٹی اپوزیشن کیمپ میں تھی۔ نجم الدین اربکان کی پارٹی کی تحلیل کے بعد ان کے اکثر رفقاء جو اب بزرگی کے مراحل میں ہیں،سعادت پارٹی اور چند آق پارٹی میں شامل ہیں۔ خود اردوان بھی ان کے ہی شاگرد رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے بینر کے تلے ہی استنبول کے مئیر منتخب ہوگئے تھے۔ نو رفاء پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بعد ایردوان سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے دم پر پارٹی کے احیاء کی کوشش کی۔ پچھلے نو ماہ میں اس پارٹی نے ملک بھر میں چھ لاکھ افراد کو ممبر بنا لیاہے۔ موجودہ انتخابات میں 6.19 فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ملک میں ابھری ہے۔ کردوں کی ڈیموکریٹک پارٹی 5.70فیصد ووٹ لیکر چوتھے مقام پر چلی گئی۔ نو رفاء پارٹی نے ایک میٹروپولیٹن شہر اور دو صوبوں اور 69 اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ کچھ شہروں میں پارٹی کو 20-30% ووٹ بھی ملے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کی سب سے بڑی خبر رفاء پارٹی کا احیاء ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد اربکان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی ان انتخابات کی اسٹار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے پیدائش شانلی عرفہ کے صوبہ کو جیتنے کے علاوہ ا نہوں نے یوزگات اور 24 ٹاؤن میونسپلٹیوں پر بھی قبضہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نتائج قومی ویژن کی بحالی اور ویلفیئر پارٹی کے اقتدار کی طرف مارچ کی طرف ایک قدم ہے۔ پچھلے سال کے پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں انکے ووٹوں میں 100 سے 150 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے نو منتخب کونسلروں اور مئیروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ انصاف سے کا م لیں اور میرٹ کو ترجیح دیکر اپنے کام کو مثالی بنائیں۔ ان کا دعوی ہے کہ 2028 کے انتخابات میں وہ ایک اہم طاقت کے بطور میدان میں ہونگے۔ ان کی پارٹی کی متاثر کن کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ معاشی امور کے علاوہ ترک عوام کی ایک بڑی تعداد ایردوان کی حکومت سے اس بات پر بھی ناراض تھی کہ اس نے غازہ جنگ کے بعد اسرائیل کے خلاف کسی عملی قدم سے گریز کیا۔ جس طرح روہنگیا یا نگورنو کاراباخ کے حوالے سے ترکیہ نے عملی اقدامات کئے وہ غازہ کے سلسلے میں مفقود تھے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی سطح پر بھی تعلقات میں کوئی تنزلی دکھائی نہیں دی، گو کہ اردوان نے استبول میں فلسطین کے حق میں ایک ریلی کا انعقاد کیا، مگر کئی افرا د کا کہنا تھا کہ بس زبانی جمع و خرچ تک ہی محدود رہا۔ ترک عوام کا فلسطین کے حوالے سے ایک جذباتی تعلق رہا ہے، جس کا ادراک کرنے میں آق پارٹی ناکام رہی۔ عبدالحمید چوہان کے مطابق ایردوان کے خلاف یہ بھی ایک اہم فیکٹر رہا، جس سے ان کے ووٹر بدک گئے۔ ان کا کہنا ہے اگر دیکھا جائے تو ترکیہ کا 60فیصد ووٹر دائیں بازو سے مطابقت رکھتا ہے ، جو آق پارٹی اور دیگر قوم پرست پارٹیوں کا ووٹ بینک رہا ہے۔اگلے انتخابات میں اگر اردوان میدان میں نہیں ہوتے ہیں، تو نو رفاء پارٹی کو اس ووٹ کو لبھانے اور ایک لمبے عرصے تک ترکیہ کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے خاصے مواقع دستیاب ہیں۔ ایرردوان کی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد فاتح اربکان کے ایک کرشماتی شخصیت کے بطور ابھر نے کے خاصے مواقع ہیں۔ روایتی اسلام پسند سعادت پارٹی دو دیگر الٹرا نیشنلسٹ پارٹیاںMHP اور گڈ پارٹی ان انتخابات میں بری طرح ناکام رہی۔یہی حال نسل پرست ظفر پارٹی کا بھی ہوا۔ خیر ان انتخابات کے نتائج نے ترکیہ کے مستقبل کی ممکنہ سمت کی ایک جھلک پیش کی ہے۔یہ انتخابات اقتصادی پالیسی میں تبدیلی اور عالمی سطح پر ترکیہ کے ایک نئے کردار کا مطالبہ کرر ہے ہیں۔ اسکا بیانیہ صرف قیادت میں تبدیلی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں ایک گہری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔اس انتخابی ہلچل کے اثرات دور رس ہیں۔ ترکیہ کی سیاست ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ یہ لمحہ محض انتخابی فتح یا جشن کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تجدید عہد، احتساب، اور زیادہ جامع اور جمہوری طرز حکمرانی کے ماڈل کی قوم کی خواہش کا عکاس ہے۔ رائے دہندگان کا پیغام واضح ہے ۔ وہ تبدیلی اور ایک ایسی حکمرانی کی چاہت رکھتے ہیں، جو ان کی خواہشات اور امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرے، جو ترکیہ کی سیاسی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز کرے۔پچھلے بیس سالوں سے ترک عوام نے اردوان کو پذیرائی بخشی، جو ایک نیا ویژن لیکر میدان میں اترے تھے اور وہ ان پیمانوں پر اترنے والے کسی نئے لیڈر کو بھی پذیرائی بخشنے کیلئے تیار ہیں۔ مگر سوال ہے کہ لیڈر کون ہوگا؟امام اولو، منصور یاواش یا فاتح اربکان۔