تجھے کیا ملے گا نماز میں؟… اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز، دینِ اسلام کا سب سے بنیادی اور اہم رُکن ہے۔ اسے دین کا ستون بھی قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی باور کرا دیا گیا ہے کہ روزِ قیامت سب سے پہلا سوال اسی نماز سے متعلق ہی ہوگا لیکن بدقسمتی یہ کہ ہمارے ہاں ہر کام کی طرح اسے بھی عبادت کی بجائے عادت کی طرح ٹریٹ کیا گیا ہے۔ کبھی اس کے اندر چھپے مستحسن مقاصد پہ نظر ہی نہیں کی گئی۔ ہمارے خیال میں اہلِ ایمان کے لیے نماز کا ایک نہایت بنیادی مقصد تو زندگی کے اوقاتِ کار کو اس کے مطابق ترتیب دینا تھا۔ اس کے اوقات پہ نظر کیجیے تو کیا خوبصورت فلسفہ سامنے آتا ہے کہ فجر کے وقت نیند سے جاگ جائیں، جو صحت، برکت اور باقاعدگی کے لیے سنہری لمحات ہیں۔ پھر ناشتے اور تیاری کے بعد نمازِ ظہر تک زندگی کے تمام باقاعدہ امور یعنی تعلیم، دفاتر، عدالتیں وغیرہ نمٹا لی جائیں۔ ظہر سے عصر کھانے، قیلولے استراحت اور اس سے ملتے جلتے معاملات کے لیے بہترین وقت ہے۔ اسی طرح عصر سے عشاء نمازوں کے ساتھ ساتھ خریداری، ملنے ملانے، تقریبات،سیر و تجارت وغیرہ کے لیے مناسب ترین اوقات ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے سورج کا سہارا کم ہونے کے باوجود، اس حکمتِ عملی کو اپنا لیا اور آج ان کا عروج اور اپنا خروج آپ کے سامنے ہے، شاعرِ مشرق نے سچ کہا تھا: کہ مُغ زادے نہ لے جائیں تِری قسمت کی چنگاری توانائی کے بحران کے اس دور میں پوری دنیا دن کی روشنی (day light) پہ زور دے رہی ہے، ایسی ایسی قومیں جن کے پاس یہ سہولت بھی محدود ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے دیگر قدرتی خزانوں کے ساتھ دن کی روشنی بھی جی کھول کے عطا کر رکھی ہے، انھی قدرتی ذخائر کی بنا پر پوری دنیا کی ہم پر نظر ہے،بس ہماری اپنی نظر کام نہیں کر رہی۔ ہم نے کبھی اس بات پہ غور ہی نہیں کیا کہ اگر سکول، دفاتر کا کام چھے بجے شروع ہو کے ظہر سے پہلے مکمل ہو جائے تو ہمارے پاس کتنا اضافی وقت بچ جائے۔ آپ چینیوں جاپانیوں کو دیکھ لیجیے، وہ عشا کے وقت سو جاتے ہیں، ناشتہ تو وہ دفتر کے راستے میں کرتے ہیں اور ہم حلوہ پوریوں اور نہاریوں کے انتظار میں وقت اور صحت برباد کرنے کے لیے پوری پلاننگ کرتے ہیں۔ امریکا میں لنچ کے لیے بارہ بجے کا وقت مقرر ہے۔ مجال ہے کوئی دفتری اوقات میں کھانے پینے یا ذاتی فون استعمال کا سوچے۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کی جا رہی ہے کہ ہم نے نماز جیسے خدائی فلسفے کو بھی فار گرانٹڈ لیا ہے، نہ اس کے اندر چھپی زندگی کی کامیابیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی، نہ اس میں نہاں بندگی کے سلیقوں تک رسائی ہو سکی۔ آج پوری دنیا کے اطبا اس بات پہ متفق ہیں کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے کے دو گھنٹے صحت، ذہانت، ورزش اور سوچ بچار کے لیے بہترین ہیں۔ ہمارے دین میں نمازِ فجر کی اذان کے اندر فرما دیا گیا کہ الصلوۃ خیرمن النوم یعنی اس وقت میں عبادت کے ساتھ ساتھ ہر کام کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ ہمارے نبی ﷺ نے فرما دیا کہ باری تعالیٰ کو یہ وقت اتنا پسند ہے کہ جتنی دعائیں اس وقت میں قبول ہوتی ہیں اتنی پورے دن میں نہیں ہوتیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ یہ پینڈو جو ایک چھوٹے سے گاؤں سے اُٹھ کے آج یونیورسٹی پروفیسر کے درجے پہ فائز ہے تو اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا فلسفہ یہی ہے کہ اپنے ہر کام کو نماز کے اوقات کے مطابق ترتیب دے رکھا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم کامیابیوں کے لیے مغربی فلاسفہ کے پیچھے تو بھاگتے ہیں یا اسے نماز کو ذرا برابر اہمیت نہ دینے والے ملنگوں، درویشوں، پیروں، فقیروں کی نگری میں تلاش کرتے ہیں، کائنات کے سب سے بڑے فلسفی اور پیر ؐ کے اعمال میں کیوں تلاش نہیں کرتے کہ جنھوں نے جنگ اور شدید بیماری کی حالت میں بھی نماز ترک کرنے کی بات نہیں کی۔ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اگر ہم آج بھی نماز سے متعلق اپنی ترجیحات و ترغیبات پہ غور کر لیں تو ترقی کا سفر یہیں سے شروع ہو جائے گا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اذان اور تکبیر میں چھے چھے بار نیز ہر نماز کی ہر رکعت کے رکوع و سجود میں بار بار دہرائے جانے والے خوب صورت مرکب اللہ اکبر کو سن کے، سمجھ کے اگر ربِ ذوالجلال کی عظمت، بڑائی، ہیبت ہمارے دلوں پر طاری نہیں ہوتی اور کائنات کی ہر چیز اس کے سامنے ہیچ دکھائی نہیں دیتی تو ہم نے نماز کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ پھر اگر ہر نماز میں زمین پہ ماتھا رگڑنے کا عمل ہمارے اندر عاجزی، انکسار اور رِقت رواں نہیں کر دیتا تو ہم عبادت نہیں عادت پوری کر رہے ہیں۔ مَیں دین میں کسی فرقے بازی کا قائل نہیں ہوں اور نماز کی ادائی کے لیے بالعموم ہر فرقے کی مسجد میں چلا جاتا ہوں۔ ہر جگہ دیکھ کے یہ افسوس مزید فزوں تر ہو جاتا ہے کہ ہماری مساجد میں اٹھانوے فیصد نمازی ساٹھ ستر برس سے اوپر کی عمر کے ہیں۔ ان میں بھی آدھے تو ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ وقت گزارنے، دورانِ ملازمت و کاروبار ’کردہ گناہوں‘ کی معافی مانگنے یا بہوؤں، بیٹوں کیجانب سے دھکیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہر وقت کی نکتہ چینی سے ذرا سکھ کا سانس ملے۔ وہاں کا غصہ وہ مسجد میں اتفاق سے آئے چند بچوں کو ڈانٹنے یا ہر صف سے پیچھے دھکیلنے پہ صرف کرتے ہیں۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ کیا مجموعی طور پر ہم اپنی نئی نسل کو اپنے عمل یا تربیت سے نماز جیسی اہم ترین ریاضت کے لیے ذہنی یا عملی طور پر قائل کرنے میں ناکام قرار پا چکے ہیں؟ یقینا اس کا جواب ہاں میں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ نماز کے مفہوم ومعنی و مقاصد کو سمجھے سمجھائے بغیر فرض کی بجائے قرض کی طرح ادا کیے چلے جانے میں ہے۔ آپ خود ہی غور کریں اگر ہم ہر نماز میں فرض قرار دی گئی سورہ فاتحہ کہ جسے قرآن کا دروازہ بھی قرار دیا گیا ہے، اس کی تفہیم اور تعمیل کے بغیر اس میں داخل ہونے سے کیا اس کے مقاصد پورے ہو سکتے ہیں؟ اور کیا قرآن کی بچپن سے زبانی یاد شدہ چند سورتوں کو صرف رٹے کے ساتھ پڑھناہی کافی ہے؟ اسی طرح التحیات، درود ِ ابراہیمی اور ربِ جعلنی حتی ٰ کہ سلام پھیرنے تک جیسی وقیع و وسیع دعاؤں کا شعور ہمیں کون دے گا؟ کیا زندگی کے ضروری معاملات سے الگ رکھ کے محض رٹی رٹائی دعاؤں سے نماز کا اصل مقصد پورا ہو جائے گا؟ سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ کہ گزشتہ پچھتر سالوں سے ہماری مساجد میں اسرائیل کو برباد، ہندوؤں کی توپوں میں کیڑے پڑنے، کشمیر کی فتح، پاکستان کے عالمی پردھان بننے کی بے روح دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔ ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ بے عملی کا ازالہ دعاؤں کی تکرار سے نہیں، شعور کے عملی اظہار سے ہوتا ہے، اقبال ہی کا فرمان ہے کہ: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے (جاری)