جب بھی تیل کی قیمت بڑھتی ہے حکومت کا کوئی وزیر اور مشیر آتا ہے اور ہم کو ریاضی کا نیا کلیہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے فلاں ملک میں تیل کی قیمت اتنی ہے ،ہمارے ہاں اتنی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ لوگ عوام کو سمجھتے کیا ہیں۔ انکو یہ پتا نہیں ہے کہ حساب کرتے وقت اکائی ایک رکھتے ہیں۔ انکا تو کلیہ یہ ہے یہ فاصلہ پانچ میٹر اور دوسرا دو کلو میٹر تو پانچ والا زیادہ ہے کیونکہ وہ پانچ ہے اور وہ دو۔ عقل کے اندھوں وزیرو ایک کلو میٹر میں 1000 میٹر ہوتے ہیں دوکلو میٹر کا مطلب ہے 2000 میٹر۔ اب آتے ہیں ہم تیل کی طرف،ور تیل ملتا ہے پیسوں کا اور پیسے ملتے ہیں اجرت میں۔پاکستان میں کم از کم تنخواہ 17500 روپے ہے اور جو بنتی ہے سو ڈالر ماہانہ اور 1200 ڈالر سالانہ۔ اب ہم آتے ہیں چند ممالک کی کم از تنخواہ کی طرف ۔ اس سلسلے میں ہم کوئی زیادہ امیر ملکوں کا حساب نہیں لگائے گئے بس درمیانے اور نچلے درجے کے ممالک۔ تھائی لینڈ کی سالانہ اجرت ہے 3316 ڈالر۔ یورا گوئے 6103 ڈالر سالانہ۔ جنوبی افریقہ 3239 ڈالر سالانہ۔ سربیا 3410 ڈالر سالانہ۔ فلپائن 2696 ڈالر سالانہ۔ اب چند امیر ممالک کا ذکر بھی ہو جائے کیونکہ ہمارے وزیر انکی بات بھی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا 28734 ڈالر کینیڈا 21477 فرانس 21786 ڈالر جرمنی 22214 ڈالر جنوبی کوریا 21356 ڈالر نیوزی لینڈ 27407 ڈالر بر طانیہ 23656 ڈالر امریکہ 15080 ڈالر اب یہ تو تھے اعداد وشمار اب اس حساب سے امریکہ میں پٹرول کی قیمت اگر پاکستانی ہزار روپے فی لیٹر ہے تو بھی کم ہے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ عوام اتنے بیوقوف نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہے ہو۔ بات بات پر وزیر اعظم ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں۔ بہتر ہے اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کسی شہر کو دہلی بنا دیںجہاں عام آدمی پارٹی کے کیجری وال نے بس کا سفر مفت کر دیا، بجلی مفت کر دی، علاج مفت کر دیا۔ تعلیم مفت کر دی، اور ہم ہیں کہ کہ بس بات مفت ۔ کیجری وال نے دس سال سے دہلی کو سیاست بدل دی۔ کانگریس ، بی جے پی سب کو نکال باہر کیا۔ کام بولتا ہے۔ حکومت کا کا قصور یہ نہیں ہے کہ اس نے مہنگائی کے ریکارڈ توڑ دیئے یا اس نے پٹرول کی فی لٹر قیمت کہاں پہنچا دی۔ ڈالر کی قیمت 175 روپے تک پہنچ چکی ہے ۔حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ۔یہ سب وہ چیزیں ہیں جو بحال ہو سکتی ہیں۔ مہنگائی کم ہو سکتی ہے۔ حکومت بہتر ہو سکتی ہے۔ حکومت نے عوام کی رہی سہی امید ختم کردی۔ اب عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ پہلے لوگ اس خوش فہمی میں تھے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد کوئی تیسری قوت آئے گی جو حالات کو درست کر دے گی۔ اب یہ امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ اب لوگوں کا پتہ ہے زرداری ہو یا نواز یا عمران – ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ اب تو وہ پرانا گیت یاد آتا ہے : اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا عوام مہنگائی کے ہاتھوں لاچار ہیں۔ بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس سے بڑی مایوسی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ قوم دوبارہ مولانا فضل الرحمان، نواز شریف اور زرداری کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اب پاکستان قوم کا حال اس آدمی کا ہے جو پہلے نزلہ سے تنگ ہو اور پھر اسکو نمونیہ ہو جائے تو وہ نزلہ کی تکلیف بھول جاتا ہے ، پہلے لوگوں کا مسئلہ تھا کہ یہاں تعلیم میسر نہیں۔ علاج میسر نہیں۔ ترقی نہیں ہو رہی اب مسئلہ یہ ہے لوگ روٹی سے تنگ ہیں۔ اب تعلیم، علاج سب بھول گئے ہیں۔ اب عام آدمی کی خوشی یہ ہے کہ اس نے چینی، پتی اور گھی 8 دن کا ل راشن لے لیا ہے۔ ایک مہینہ تک بل کی فکر نہیں ہے۔ایک بڑا معرکہ حل ہو گیا ہے مکان کا کرایہ دے دیا ہے۔ اب پاکستانی عوام کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ایک وقت کی روٹی کھا کر دو گھنٹے دھمال ڈالیں گے کہ ایک وقت کی روٹی مل گئی۔ مستقبل قریب میں پاکستان کے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے ، گیس کی کمی نہیں ہو گی کیونکہ بل ہی اتنا آئے گا۔ کہ کوئی اسکو استعمال نہیں کرے گا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی کیونکہ استعمال ہی نہیں کر سکیں گے لوگ۔ تعلیم کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔ کیونکہ جب نوکری نہیں ملے گی تو پڑھنے کا کیا فائدہ۔ ایک میدان ایسا ہے جو سج سکتا ہے ، سکرپٹ لکھنے والوں کی بڑی مانگ ہے اگر حکومت کے مشیر اور وزیر اپنی اکیڈمی کھول لیں ۔لو گ ان سے سکرپٹ لکھنے کا ہنر سیکھ سکیں گے۔ ڈرامہ، فلم ، داستاں ،ہر ایک صنف کا سکرپٹ یہ سکھا سکتے ہیں اور ہمارے ملک کے عوام اس ہنر کو سیکھ کر لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ ایک اچھے آرٹیکل پر سو ڈالر تک مل جاتے ہیں۔ ؎ہمارے حکومتی عہدیدار اس فن کے بہت ماہر ہیں جس طرح فلم کا لکھاری ہیرو کو ہر مصیبت سے بچا لیتا ہے چاہے وہ عقل میں آئے یا نہ آئے۔ اس طرح حکومتی وزیر اور مشیر حکومت کی ہر ایک ناکامی کو کامیابی کا رنگ دے ڈالتے ہیں۔ سب سے سستا تیل پاکستان میں ملتا ہے ۔ سب سے بڑی اکانومی پاکستان بننے والا ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں پہاڑوں سے اتر کر میدانوں کا رخ کرنے والی ہیں۔ ضمنی بجٹ سے عوام کی مشکل ہو ہو جائے گی، نزلہ ختم اور نمونیہ شروع۔ اور نمونیہ کا علاج ہم ٹھیک کر لیں گے۔بس بجٹ پاس ہو جائے پریس کانفرنس کی تیاری مکمل ہے۔