اپوزیشن نے 8 مارچ کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے۔ اب 14 دن کے اندر اسمبلی کا اجلاس ہوگا اور اسکے بعد سات دن میں فیصلہ ہو جائے گا کہ عمران خان ملک کے وزیر اعظم رہتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت دونوں فریق بہت پر اعتماد ہیں ۔ عمران خان کے اعتماد کا یہ حال ہے کہ انہوں نے اسمبلی نہیں توڑی اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپوزیشن بھی اس حد تک پر امید ہے کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سی باتیں دہرائی جا رہی ہیں اور بہت سی باتیں پہلی بار ہو رہی ہیں۔ ماضی میں جس حکمران نے امریکہ کی مرضی کے خلاف جانے کا ارادہ کیا اسکو گھر جانے کا بندوبست کر دیا گیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے روس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی اور اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کی کوشش کی ،امریکہ نے بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ زندگی سے بھی محروم کر دیا۔ بے نظیر نے اپنے باپ کے قاتلوں سے مفاہمت کی کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں رکھا جا سکتا۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی اور انکی حکومت چلی گئی۔ نواز شریف کو بعد میں سعودی عرب اور امریکہ نے مشرف سی رہائی دلائی۔ پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسی امریکہ کی مرہون منت رہی ہے مگر اب بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ شوشل میڈیا کی شکل میں ایک ایسا جن وجود میں آچکا ہے جس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے میچ آخری اوور میں جا چکا ہے ،کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت کے سامنے 20 رنز کا ٹارگٹ ہے اور پانچ وکٹ باقی ہیں۔ تین چار چھکے میچ کا پانسا پلٹ سکتے ہیں اور ایک دو ڈاٹ بال اور میچ اپوزیشن کی گود میں۔ حکومت کا بچنا مشکل ہے ناممکن نہیں۔ عمران خاں کی خوبی ہے کہ وہ ہار نہیں مانتا لیکن یہ بات بھی نہیں ہے کہ وہ ہارتا نہیں۔ 1992 کی بات کرنے والوں کو 1987 بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جب ایک نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم نے پاکستان کو پاکستان کے گراونڈ پر ہرادیا تھا۔ لاہور میں اسٹریلیا کے ہاتھوں شکست عمران خان کو اب بھی یاد ہوگی۔ اور ایک چیز اور بھی ہوتی ہے جس کو قسمت کہتے ہیں عمران خان جب بالنگ میں اپنے عروج پر تھے تو ان فٹ ہو گئے تھے ۔ انڈیا کے خلاف چار ٹیسٹ میں 30 سے زائد وکٹ لینے والا ایک عرصہ تک بالنگ کرنے سے معذور رہا ہے۔ تحریک اعتماد کامیاب بھی نظر آتی ہے اور ناکام بھی۔ دونوں باتوں کے لئے دلائل مضبوط ہیں۔ کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن متحد ہے اور اسکو بیرونی عناصر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پچھلے تین مہینے میں مغربی ممالک کے سفیروں کے رابطے جس طرح سے اپوزیشن کے ساتھ رہے ہیں وہ کوئی راز کی بات نہیں۔ عمران خان کا دورہ روس اور یوکرائن کا تنازعہ اور عمران خان کا یورپی یونین اور نیٹو پر سوال اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔امریکی لابی اس وقت مکمل طور پر پاکستان میں متحرک ہے ۔ افغانستان کا مسئلہ اور سی پیک کا بہت گہرا تعلق ہے اس تحریک عدم اعتماد سے۔حکومت کے اتحادی بھی حکومت کی حمایت دبے لفظوں میں کر رہے ہیں۔ وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے۔ پرویزالٰہی کا بھی بیان کہ حکومت مشکل میں ہے۔ ایم کیو ایم بھی محتاط ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کا کیا رول ہو گا۔ اپوزیشن کو صرف دس ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے اور اسکا دعوی ہے کہ 20 سے زائد حکومتی ارکان اسکے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کے تین بڑے پہلی بار اکٹھے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان پہلی بار ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔اسٹیبلشمنٹ بھی محتاط نظر آتی ہے۔اگر مقتدر حلقے مکمل طور پر حکومت کے ساتھ ہوں تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ حکومتی ارکان کو توڑنے کا دعوی کرے۔ اگر ہم حکومت کو دیکھیں تو تحریک عدم اعتماد ناکام نظر آتی ہے ، عمران خان بہت اعتماد میں ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اب 2028 تک انکو کوئی نہیں روک سکتا۔ عمران خان پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنکا رویہ مغرب سے معذرت خواہانہ نہیں ہے اور اس بات کو پاکستان کے عوام بہت پسند کر رہے ہیں۔ عمران خان کو روس اور چین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔چین کی پاکستان میں پچھلے سالوں میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کبھی بھی امریکی حمایت یافتہ سیاستدانوں کو پاکستان میں آنے نہیں دے گا۔ اپوزیشن نے امریکی بلاک کو کوئی یقین دہانی کرائی ہوگی اور یہ یقین دہانی چین کے علاوہ کس کے خلاف ہو سکتی ہے۔ ایک بات جس کا ادراک بہت سے لوگ نہیں کر رہے وہ یہ ہے کہ اب 1977 نہیں 2022 ہے۔ اب رائے عامہ بنانے کا کام چند اخباروں اور بی بی سی کا کام نہیں۔ اب فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر کی شکل میں بڑے بڑے میڈیا جن موجود ہیں اور ٹیوب چینل اور فیس بک مضبوط اور موثر میڈیا بن چکے ہیں ہے۔جس طرح 18 کروڑ ایک ایم این کی بولی کا اعلان ہو رہا ہے اور زیر اعظم خود کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف بیرونی عناصر متحرک ہیں عو،ام کا ایک طبقہ مہنگائی کو بھول کر عمران خان کے ساتھ مل رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام ،یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان کا قد ایک سیاستدان کے طور پر زیادہ بڑھے گا۔پاکستا نی عوام ایک آزاد پاکستان کو پسند کرتے ہیں اور یہ نعرہ 2023 کے الیکشن بہت مقبول ہو گا۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وزیر اعظم کون بنے گا یہ سوال بھی بہت اہم ہے۔ کامیاب ڈکیتی کے بعد بعض اوقات مال کی تقسیم پر لڑائی بہت ہوتی ہے۔پاکستان کی تاریخ ہے کہ یہاں تاریخ عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور دوسری تاریخ یہ ہے کہ امریکہ مخالف حکمران کبھی پاکستان میں زیادہ دن چل نہیں سکا۔ ایک تاریخ تو ضرور تبدیل ہو گی ،اس بار کچھ نیا ضرور ہوگا۔