چند دن پہلے خریداری کے سلسلے میں بازار جانا ہوا۔ شاپنگ سینٹر میں داخل ہوا تو سامنے ہی جلی حروف میں بورڈ پہ لکھا تھا " اپنے قیمتی سامان کی خود حفاظت کیجئے نقصان کی صورت میں انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہو گی". یہ پڑھتے ہی بے ساختہ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس وقت من حیث القوم ہم سب پاکستانیوں کا یہی حال ہے کہ بیچاری عوام اپنی خون پسینے کی کمائی دووقت کی روٹی کے عوض ان حکمرانوں کو بیچ دیتی ہے اور بدلے میں کچھ بھی میسر نہیں۔ گویا اپنی کمائی ان پہ لٹائیں، بھاری ٹیکس اور مہنگائی کا بوجھ خود اٹھائیں اور بدلے میں ان سے کسی قسم کی کوئی توقع مت رکھیں۔ پاکستان میں اس وقت صاحب اقتدار طبقہ اپنے اقتدار کی جنگ میں اس قدر محو ہے کہ کسی کو ڈوبتی معیشت کا احساس ہے نہ فرصت۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے مابین وہ گھمسان کا رن پڑا ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں کیساتھ وطن عزیز کو ڈبونے اور تباہ کرنے کی ذمہ داری دوسروں کے کاندھے پہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ن لیگ ہو، پی ٹی آئی ہو یا دیگر جماعتیں ہمیشہ کی طرح کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ملک کو اس نہج پہ لانے میں سبھی نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اس بد ترین زبوں حالی میں ڈالر کی اونچی اڑان نے پھر سے ہماری معیشت کو زمیں پہ پٹخ ڈالا ہے۔ ترقی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے اس وقت ڈالر 255 روپے کا ہو گیا ہے اور یہ کالم چھپنے تک نجانے اور کتنی اونچی اڑان بھرے گا۔ یہ غریب عوام کی کمر اور گردن تو پہلے ہی توڑ چکا ہے اب پسلیاں توڑنے کو تیار ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی میعشت پہ 2500 ارب کے مزید قرضے بڑھ گئے ہیں۔ سود کی لعنت جو ہم نے بخوشی اپنے سر تھوپی تھی آج ہمارے گلے کا طوق بنی ہوئی ہے۔ شرح سود 27 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور اس بلندی سے نمٹنے کیلیے گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید مہنگائی کی نوید سنا دی ہے۔ گویا پاکستانی عوام کی حالت اس وقت یوں ہے کہ آگے قبر تو پیچھے کھائی۔۔۔۔ دہائی ہے دہائی۔۔۔۔ جائیں تو جائیں کہاں کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی تو پہلے ہی کم نہیں تھی لیکن پچھلے ایک سال میں جو طوفان اٹھا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ آٹا ، چاول، چینی ، پھل سبزی اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ بیان سے باہر ہے۔ پیٹرول کی دن بدن بڑھتی قیمتیں جلے کو مزید جلا رہی ہیں اور جلتی پہ آگ ڈال رہی ہیں۔ گویا آئندہ آنے والے چند ماہ قیامت صغریٰ کی وعید سنا رہے کہ پاکستانی عوام ان سودی قرضوں سے نمٹنے کیلئے اپنی خون پسینے کی کمائی سرکار کی خدمت میں حاضر کردیں ورنہ جیئں یا مریں سرکار کو کوئی سروکار نہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید مہنگائی کو ناگزیر قرار دیے دیا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے، تنخواہوں اور پینشنرز کی پینشنز میں کمی کا اعلان تو پہلے ہی ہوچکا اب رہی سہی کسر مہنگائی میں اضافے سے پوری کی جائے گی۔ اب بھلا عوام یہ حق کہاں رکھتے ہیں کہ حکمرانوں سے اپیل کر سکیں کہ تمام توپوں کا رخ آخر ہماری جانب کیوں ہے؟؟ کیا اپنی عیش و عشرت اور اللوں تللوں میں کسی قسم کی کٹوتی کی کوئی گنجائش نہیں ؟؟ کیا وزرائے اعظم اور کابینہ اور پارلیمنٹ کے حجاج کرام اپنے خرچوں میں کسی قسم کی کٹوتی کرکے عوام کا ہمدرد ہونے کا ثبوت دیں گے ؟؟ یا پچھلے پچھتر سالوں کی طرح محض باتوں سے ہمارا پیٹ بھرا جائے گا؟؟ یا ہم پاکستان سے لندن، لندن سے دبئی اور دبئی سے پاکستان کی داستان سفر ہی سنتے رہیں گے کہ کون آیا اور کون گیا۔. اب ان دگر گوں حالات سے نمٹنے کیلئے چند قیمتی اور مفت مشورے میں قارئین کرام کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ آخر وہ کون سے طریقے ہیں جن سے ہم اپنی زبوں حالی پہ کچھ قابو پا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے خود پہ یہ احسان کریں کہ کسی سیاسی پارٹی کو اپنی تمام تر امیدوں اور امنگوں کی تکمیل کا مرکز ہر گز نا بنائیں۔ اپنی زندگی سے تمام خوابوں، خواہشوں اور اچھے دنوں کی امید نکال دیں کیونکہ جن کے ہاتھوں میں ہم نے اپنے ملک کی باگ ڈور دی تھی وہ ہمارے خوابوں کو کچلنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اپنی زندگی میںزیادہ سے زیادہ سادگی اپنائیں اور سکون پائیں۔ اچھا گھر، سستا اور معیاری علاج، سستی بجلی اور گیس، صحت مند غذا اور صاف ستھرا ماحول اور بہترین نظام تعلیم کو پرانی کتابوں اور بزرگوں کے قصے کہانیوں میں تلاش کیجئے نا کہ موجودہ پاکستان میں۔ چند دن پہلے ہونے والے طویل ترین بجلی کے بحران نے ہمیں موم بتیاں تلاش کرنے پہ مجبور کر دیا تھا تو کیوں نا آنے والے وقت کی تیاری بھی ابھی سے شروع کر دی جائے۔ تقریباً دو ماہ بعد رمضان کا مبارک مہینہ جلوہ گر ہوگا تو ابھی سے روزے رکھنا شروع کر دیں۔ سارا دن روزہ رکھیں گویا صحت اور بچت ایک ساتھ! حسب حال اور حسب توفیق میسر کھانا کھائیں مرغی، مچھلی، گوشت اور پھل وغیرہ بھول جائیں۔ کسی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پہ جانے سے پیشگی معذرت کر لیں کہ بھیا ہماری گاڑی پیٹرول پہ چلتی ہے کاش کہ پانی پہ چلتی ہوتی تو ہمارا پورا خاندان آپکی خوشی میں ضرور شریک ہوتا۔ اور مہنگائی کے اس طوفان بدتمیزی میں کسی دیوانے کو شادی کے لڈو کھانے کی سوجھے تو سیدھا مسجد کی راہ دکھا دیں کہ جناب اللہ کے گھر سے ذیادہ سکون بھلا اور کہاں نصیب ہوگا۔ مسجد میں نکاح پڑھوائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ چھوارے اور مٹھائیاں قسمت میں نا ہوں تو سفید گلابی پتاشے ڈھونڈ لیجیے کیونکہ ہماری معیشت کے پہیے کو ریورس گیئر تو لگ ہی چکا ہے تو گزرے زمانے کے طرز زندگی کو اپنانے میں کیا شرم! اپنے بچوں کو پرائیویٹ اور مہنگے تعلیمی اداروں سے اٹھوا کر ٹاٹ کے سکول ڈھونڈ نا شروع کردیں کہ تاریخ گواہ ہے ٹاٹ پہ بیٹھ کے پڑھے ہوئے بچوں نے ذیادہ ترقی کی ہے۔ نیز آپ کی جان ، مال اور عزت کو کسی قسم کا خطرہ ہے تو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت خود کیجیئے اور اگر نہیں کر سکتے تو بلا جھجک مرنے کیلئے تیار رہیں۔ کسی ادارے ، محکمے اور حکومت سے کسی قسم کی مدد اور حفاظت کی توقع مت کیجیئے کہ انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہوگی۔