میں جس مسجد میں تراویح ادا کرنے جاتا ہوں، انتخابات سے ہفتہ بھر قبل وہاں وہ ایک رات نمازیوں کی چائے سے تواضح کررہے تھے۔اس سے قبل وہ اگلی صف میں نماز عشاء اور تراویح ادا کر رہے تھے۔ نتائج کے اعلان کے بعد استنبول میں فتح کا جشن منا رہے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اکرام امام اولو نے کہا کہ انہوں نے ترکیہ میں آمرانہ نظام اور پاور اسٹرکچر کو ایک شخص تک مرکوز رکھنے کی روایت کو چیلنج کیا ہے۔ ان کا اشارہ واضح طور پر اردوان کی طرف تھا، جو پچھلی دو دہائیوں سے ترکیہ میں طاقت کا محور بنے ہوئے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کی پارٹی میں بھی ان کے سیاسی قد کی وجہ سے ابھی تک ان کے جانشین کا تعین نہیں ہوسکا ہے، گو کہ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ یہ ان کا آخری انتخاب تھا۔ امام اولو کا کہنا تھا کہ ترکیہ میں جمہوریت کا احیا ء ہو رہا ہے اور شخصی نظام کا خاتمہ ہورہا ہے ۔ اردوان، جو وزیراعظم بننے سے قبل استنبول کے مئیر تھے، کیلئے اس شہر کو حاصل کرنا ایک وقار کا مسئلہ بنا ہو ا تھا۔ وہ اس شہر کو واپس لینے کے لیے پرعزم تھے۔ یہ شہر ترکیہ کی مجموعی جی ڈی پی کا 30.4فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ تقریبا 25 سال تک یہ آق پارٹی کے زیر اثررہا ہے۔ 2019میں ایک سخت مقابلہ کے بعد سی ایچ پی کے امام اولو نے یہ شہر آق پارٹی سے چھین لیا۔ تازہ ترین انتخابات میں آق پارٹی استنبول کے 10 اضلاع میں پچھڑ گئی۔ حتیٰ کہ استنبول کے بیوگلو ضلع، جہاں ایردوان پیدا ہوئے ہیں، میں بھی سی ایچ پی کو سبقت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ غیر سرکاری نتائج آنے کے فوراً بعد ہی اردوان نے اپنی پارٹی کے صدر دفتر کی بالکونی پر آکر شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترک عوام کی مرضی کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ میں جمہوریت جیت گئی ہے اور یہ طے ہوگیا ہے کہ جس کو اقتدار میں آنا یا جانا ہے، اس کا راستہ بیلٹ بکس یعنی عوام کی رائے سے طے ہونا ہے۔ ان کا اشارہ ترکیہ کی سیاست میں فوج کے عمل و دخل سے متعلق تھا، جس کو ختم کرنے کا سہرہ ان کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے بغیر کسی روک ٹوک کے، بیلٹ میں اپنی مرضی کا مظاہرہ کیا اور یہ ترکیہ کے لیے ایک بڑا فائدہ ہے۔ہارنے کے بعد اکثر سیاسی راہنما کئی روز تک اپنا منہ ہی نہیں دکھاتے ہیں۔ اردوان کا فوراً ہی عوام کے روبرو ہوکر، اپنی شکست تسلیم کرنا ، ان کے اعتماد کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے، خاص طور پرجب صرف نو ماہ قبل انہوں نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اردوان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے پوری شدت کے ساتھ کام کیا، خود گزشتہ ایک ماہ کے دوران انہوں نے انتخابی مہم کے دوران 52 شہروں کے دورے کرکے عوامی اجتماعات سے خطابات کئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی شکست میں معاشی پالیسیوں، ہوشربا مہنگائی ، افراظ زر سے نپٹنے میں ناکامی ایک اہم عنصر رہی۔ چار سال قبل پانی کا ایک کین جو 14لیرا میں ملتا تھا، اب سو لیرا تک پہنچ چکا ہے۔ ایک اوسط درجے کے فلیٹ کا کرایہ جو ایک ہزار لیرا کے اندر ہوتا تھا ، دس ہزار سے تجاوز کر گیا ہے۔2019 میں جہاں ایک ڈالر چار لیرا کا ہوتا تھا، اب یہ تیس لیرا سے تجاوز کر گیا ہے۔ انتخابات سے پہلے اردوان نے مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کم از کم آمدنی اورملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر اس میں ریٹائرڈ افراد اور ان کی پینشن شامل نہیں کی۔ جس کا معمر افراد نے خاصا برا منایا اور وہ ان کی پارٹی کو سبق سکھانے پر کمر بستہ ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ملک میں تقریباً 15 ملین افراد پینشن پر گذارہ کرتے ہیں۔ سیاسی مبصر، مہمت اوزترک کے مطابق اگرچہ زندگی گذارنے کیلئے روز مرہ کی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں نوجوان ووٹروں کا موضوع تھا، بزرگوں کے لیے پنشن میں اضافہ نہ کرنا ایردوان کو خاصا بھاری پڑ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آق پارٹی کے لیڈروں میں مسلسل پاور میں رہنے کی وجہ سے تکبر آگیا تھا، جس سے ان کے اپنے ورکر بھی ناراض تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گو کہ انتخابات میں 78فیصد ووٹروں نے حصہ لیا، مگر ایک ملین ووٹ ان ویلڈ بھی قرار دئے گئے ۔ ان کا کہنا ہے ان میں اکثر ووٹ آق پارٹی کے ورکروں کے تھے، جو انہوں نے جا ن بوجھ کر ان ویلڈ کردیئے ۔دوسری طرف نوجوان ووٹر بھی آق پارٹی سے اوب چکا ہے اور تبدیلی کا خواہاں ہے۔ مگر اس سے بھی ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے ترکیہ کے نئے سیاسی منظر نامہ میںا یک اہم کردار یعنی ایک نئی اسلامسٹ سیاسی طاقت کا داخل ہونا ہے۔ ترکیہ کے سابق وزیر اعظم مرحوم نجم الدین اربکان کی رفاء پارٹی کو سبھی بھول چکے تھے۔ پچھلے سال ہی ان کے فرزند علی فتح اربکان نے اس کا احیاء کرکے اس کانام نو رفاء یا نیو ویلفیر پارٹی رکھ کر صدرارتی انتخابات میں ایردوان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ایردوان کو شاید ان کی اسلئے ضرورت پڑ گئی تھی، کیونکہ ترکیہ کی روایتی اسلام پسند سعادت پارٹی اپوزیشن کیمپ میں تھی۔ نجم الدین اربکان کی پارٹی کی تحلیل کے بعد ان کے اکثر رفقاء جو اب بزرگی کے مراحل میں ہیں،سعادت پارٹی اور چند آق پارٹی میں شامل ہیں۔ خود اردوان بھی ان کے ہی شاگرد رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے بینر کے تلے ہی استنبول کے مئیر منتخب ہوگئے تھے۔ نو رفاء پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بعد ایردوان سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے دم پر پارٹی کے احیاء کی کوشش کی۔ پچھلے نو ماہ میں اس پارٹی نے ملک بھر میں چھ لاکھ افراد کو ممبر بنا لیاہے۔ موجودہ انتخابات میں 6.19 فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ملک میں ابھری ہے۔ کردوں کی ڈیموکریٹک پارٹی 5.70فیصد ووٹ لیکر چوتھے مقام پر چلی گئی۔ (جاری ہے)