چینی کہاوت ہے کہ ایک شہر میں کئی شہر ہوتے ہیں۔بالکل ایسے ہی ایک ملک کے اندر بھی کئی ملک ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی ایک منظر میں چھپے ہوئے کئی منظر ہوتے ہیں۔کائنات کی معتبر ترین ہستی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت سے آشنا کر دے۔ایک منظر وہ ہوتا ہے جسے ظاہر کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ایک اُس منظر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت ہوتی ہے۔ہم اس وقت سیاست کے اُفق پر جو منظر نامہ دیکھ رہے ہیں۔اس کی کچھ جھلکیاں ہمارے سامنے،اڈیالہ جیل،مینارِ پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظر آ رہی ہیں۔مگر اس فلم کے کچھ سین عام آدمی کی نگاہ سے اوجھل ہیں۔نظر دیکھتی ہے مہنگائی،پٹرول،بجلی بِل، عمران، نون، کچھ جھوٹ اور سچائیاں سوشل میڈیا بھی پھیلا دیتا ہے مگر اگر آپ شہرِ اقتدار اور اُس کے جڑواں شہر میں کچھ دن قیام کریں تو آپ کی نظر کچھ اور مناظر سے بھی آشنائی حاصل کرے گی۔اشیاء کا وجود اور پھر اُن کی حقیقت۔کبھی کبھی تو منظر سمجھ ہی نہ آئے تو پھر خود سے کہا کہ ذرا دور سے دیکھو۔۔قریب سے دیکھیں تو کئی دفعہ حقیقت دھندلا جاتی ہے۔ذرا ہٹ کر فاصلے سے دیکھو۔بہت سے پنڈت ملے۔میڈیا کے بھی اور پاور پلے کے بھی۔خیال آیا کہ یہ پنڈت وہ کچھ ہیں،جو کچھ اِن کی عینکوں کا مفاد ہے۔کچھ پنڈت عمران کے حق میں منہ سے آگ اگلتے دیکھے اور کچھ اعتدال پسندی اور صلح جوئی کے پرچارک۔کچھ نون کے حامی اور کچھ پرویز الٰہی کے وکیل۔مگر سیاسی جماعتیں خود کیا کر رہی ہیں؟ ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی بھی فیصلہ خود سے نہیں لیتی۔کیوں؟اُن کے مطابق پروین شاکر انہیں سمجھا گئی ہے کہ"بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا"۔مگر پتہ نہیں ٹریجڈی ہے یا سمندر کا دبائو کہ اب بادباں کھلنے سے پہلے والے صرف ایک اشارہ نہیں کرتے۔وہ ایک ہی وقت میں کئی سمتوں میں کئی اشارے کر دیتے ہیں۔Mixed Signals۔ہر جماعت کے اندر بیٹھے کچھ ارسطو،سقراط اور افلاطون۔ اپنی اپنی جگہ خوش فہمیوں کا شکار ہے۔مسلم لیگ نون سے استحکامِ پاکستان تک۔ایسے میں بلاول اور پی ٹی آئی بھی ناخدائوں کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔زوال کا کمال ہے کہ الیکشن کمیشن بڑی سادگی سے جنوری اور الیکشن کی خبر دے رہا ہے مگر ایک سیاسی افراتفری اور بے یقینی پھر بھی موجود ۔وہ جنہیں امید ہے،وہ بھی کنفیوژڈ اور وہ جنہیں نہیں وہ بھی ڈسٹربڈ۔فلم کے انٹرو اور اینڈ پر بات طے نہیں پا رہی۔30-40سال پہلے ان پڑھ لاہوریے سینما میں جا کر انگریزی فلم بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے۔انگولا،صنم،پلازہ اور گلستان میں کھڑکی توڑ رش ہوا کرتا تھا۔ایک دن انگریزی فلم ختم ہوئی تو میلے کچیلے شلوار قمیض میں کھلے گریبان کے ساتھ پرانی سلیپر پہنے دوان پڑھ لاہوریے بھی فلم دیکھ کر باہر نکلے۔سردی شدید تھی۔ایک ٹی سٹال پر رُکے،دو کڑک چائے کی پیالیاں لیں اور ایک اپنے ساتھی سے کہنے لگا"یار شٹوری تے چنگی سی،پر کہانی دی سمجھ نئی آئی"دوسرے نے دانش وارانہ انداز میں اپنے کپ میں چینی گھولتے ہوئے کہا"یار مینوں تے ساری فلم دی سمجھ آ گئی اے۔۔پراخیر وچ سکرین تے جیڑا تھینڈ (The End) لکھیا سے۔۔اودی سمجھ نئی آئی"۔ تھینڈ کی سمجھ نہ نون کو آ رہی ہے نہ کسی اور کو۔بڑے میاں کاکہنا ہے کہ میں چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بنوں گا اور اپنی پوزیشن واش کر کے اقتدار کی کرسی چھوٹے میاں کے حوالے کر دوں گا۔مگر نون کے اندر اس وقت چھوٹے میاں کی تابعداری کے باوجود سب ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔اسحاق ڈار،مریم گروپ،حمزہ گروپ اور چھوٹے میاں صاحب خود۔۔۔سب غیر یقینی سی صورتحال سے دوچار ہیں۔اس کے علاوہ دھڑوں کے اندر دھڑے ہیں۔Layersبھی ہیں اورWheelsبھی۔جتنی یقین دہانیاں مدد دینے والوں نے کی ہیں ملک کی۔۔وہ سب بڑے میاں کی وجہ سے ہیں ۔پارٹی سے باہر بھی اور پارٹی کے اندر بھی پاور گیمز کی رفتار میں اضافہ ہو گیا ہے۔ایک پڑھے لکھے طاقتور پنڈت نے ایک دم پنجابی میں کہا اگر۔۔شہباز کرے پرواز؟تو میں نے کہا"کیسے"؟تووہ صرف مُسکرا کر رہ گئے۔عمران کے ساتھ طاقت کے بروکرز رابطے میں ہیں،جب کُریدا تو ارشاد ہوا کہ وہ ہمارا سیاسی سرمایہ ہے،اُسے ضائع تو نہیں کر سکتے۔میں نے کہا۔۔ایم کیو ایم اور استحکامِ پاکستان کا کردار؟جواب آیا ۔۔سیاسی سرمایہ۔۔ پھر پوچھا۔۔قاف؟جواب ملا۔۔پرویز الہٰی جلد فیصلہ کر لیں گے۔ دیکھیے۔۔ساری دنیا کے منظر پر فلسطین اور اسرائیل موضوع بحث ہے۔ہماری غلام گردشوں میں کچھ اور ہی کچھڑی پک رہی ہے۔بلاول اور پی ٹی آئی ۔۔۔لیول پلیئنگ میدان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔نون بھی بے چین اور بلاول بھی بے قرار۔یہ درست ہے کہ سندھ کیلئے نیا سکرپٹ لکھا جا رہا ہے۔سوچ رہا ہوں کہ پچھلے70سال سے جو دوائیاں تجویز کی جا رہی ہیں۔۔اُن سے،درد بڑھتا گیا،جوں جوں دوا کی۔اگر اب بھی استحکام۔۔سیاسی استحکام نہ آیا تو بات بہت دور نکل جائے گی۔معیشت پہلے ہاتھ سے نکلے جا رہی ہے،سیاست کی لگام ڈھیلی نہیں ہو رہی۔سیاست نام ہے ممکنات کا۔جب امکانات کو کاغذ پر تشکیل دیا جائے تو بات سکرپٹ سے آگے نکل جاتی ہے۔الیکشن ہوسکتے ہیں مگر کیا استحکام آپائے گا؟سکرپٹ لکھنے والے بہت اسے امکانی راستوں کا حل بھی لکھتے ہیں۔فلم کی کاسٹ اور کہانی طے کرتے ہیں،اس پر کوئی بات کرنے کی بجائے منو بھائی کا پنجابی کلام سنتے ہیں: کی ھویا؟۔۔ کجھ نئی ھویا۔۔۔کجھ ہووے گا؟۔۔کجھ نئی ھونا۔۔کی ھو سکدا اے؟کجھ نہ کجھ ھوندا ای رھندا اے جو، تو ںچاہنا ۔۔او نئی ھونا! ھو نئی جاندا۔۔کرنا پیندا اے عشق سمندر ترنا پیندا اے جیون دے لئی مرنا پیندا اے