ان کارناموں کے ذریعے وہ نہ صرف مختلف حکومتی اداروں اور بین الاقوامی اداروں کے لئے مفید ثابت ہورہی ہیں بلکہ قومی ترقی میں بھی حصہ ڈال رہی ہیں۔ سرچ کمیٹیوں کو چاہئے کہ وہ ایسے وائس چانسلرز کو تلاش کریں جو ادارے بنانے کا تجربہ رکھتے ہوں، جو ادارے چلانا جانتے ہیں اور جو اداروں کو خود کفیل بنانے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ ایسے کئی افراد ہمیں اپنے ملک میں مل جائیں گے جو سرکاری جامعات کو خود کفیل بنانے کا عزم رکھتے ہیں، جو اپنے ذاتی انفرادی مفادات کی بجائے اداروں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے افراد یقیناً پاکستان میں موجود ہیں۔ بلکہ عین ممکن ہے کچھ افراد ایسے بھی ہوں جو اپنے ذاتی کیرئیر کو داؤ پر لگانے کے بعد ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے پاکستان پدھارے ہوں اور جن کا عزم ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ سرچ کمیٹیوں کو اس پہلو کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاًکچھ عرصہ قبل رحیم یار خان پنجاب کا دور افتادہ ضلع گردانا جاتا تھا جہاں صرف چند سرکاری کالجز موجودتھے مگر وہاں کوئی سرکاری جامع موجود نہ تھی۔پہلی بار وہاں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا منصوبہ شروع کیا گیا اور اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے ایک چالیس سے بیالیس سالہ ’نوجوان' کو بطور وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ تب پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین شاید بانی پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن خدمات سرانجام دے رہے تھے اور سرچ کمیٹیوں کا اہم حصہ تھے۔ اگلی حکومت پاکستان تحریک ِانصاف کی تھی اس لئے محمد شہباز شریف وہ وعدہ ایفا نہ کرسکے۔ وہ عین ممکن ہے وہ 'نوجوان' ان کی یاداشت میں کہیں کھو گیا ہو مگر پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد کی کتاب "جہد مسلسل" کے مطابق یہ وہی نوجوان پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جن کے نانا نے ریلوے سکول لاہور میں سابق وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کو بطور استاد پڑھایا تھا۔ خیر بعد ازاں نوجوان وائس چانسلر کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے انہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تعینات کردیا۔ جب انہوں نے چارج سنبھالا تو یونیورسٹی میں کل ساڑھے تیرہ ہزار طلبہ و طالبات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے چار سالوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد پیسنٹھ ہزار کردی، فیکلٹز سات سے سولہ کردیں، شعبہ جات کی تعداد بیالیس سے ایک سو بیالیس کردی، فیکلٹی ممبران کی تعداد چھ سو سے اٹھارہ سو کردی، پنتالیس نئی ڈائریکٹوریٹس، چالیس سے زائد نئے سنٹرز قائم کئے، چار نئی فیکلٹی بلڈنگ کی تعمیر کا آغاز کیا، جامعہ کی بین الاقوامی رینکنگ میں اضافہ کیا اور وہ جامعہ جس کا چارج لیتے وقت بجٹ محض پونے چار ارب روپے تھا، اس کا گزشتہ سال بجٹ قریبا بارہ ارب روپے تھا۔ جس میں سات ارب روپے بجٹ یونیورسٹی اپنی آمدن سے پیدا کررہی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ پھر یوں ہوا کہ ایک گھناؤنی سازش تیار کی گئی۔ سابق ضلعی پولیس افسر نے سی آئی اے پولیس کے ذریعے یونیورسٹی کے دو سینیر افسران کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئے اور لودھراں کے ایک مقامی یوٹیوبر کے ذریعے سوشل میڈیا پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پر تہمت، ملامت اور بدنامی کی یلغار کھڑی کردی۔ سابق ضلعی پولیس افسر ہر کمیٹی کے سامنے یش ہوکر جامعہ اسلامیہ کو بدنام کرتے رہے مگر کسی نے ان کا راستہ روکنے کی جرات نہ کی۔ نگراں حکومت نے ایک جوڈیشل کمیشن ترتیب دیا اور جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو کمیشن کا سربراہ مقررکیا گیا۔ انہوں نے دو ہفتوں کی سخت تحقیق کے بعد اس جھوٹے سکینڈل کا پول کھول دیا۔ اپنی تجاویز میں انہوں نے لکھا کہ جامعہ اسلامیہ کو سوچی سمجھی سازش کے ذریعے بدنام کیا گیا ہے۔ انہوں نے سابق ضلعی پولیس افسر سمیت چھ افراد کے خلاف کارروائی تجویز کی۔ اگرچہ صوبائی کیبنٹ سے منظوری بھی ہوئی مگر کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ حکومت تبدیل ہوئی اور نئی حکومت نے ایک ہونہار ضلعی پولیس افسر ایس ایس پی اسد سرفراز خان کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر تعینات کیا۔ انہوں نے آتے ہی جہاں دیگر معاملات ٹھیک کئے وہیں سی آئی پولیس کی ریسٹرکچرنگ کی اور اسلامیہ یونیورسٹی پر لگے داغ کو دھونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مگر اس دوران سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح سابق وائس چانسلر کی کردار کشی کی گئی۔ ان کی ذات پر کیچر اچھالا گیا، جس طرح انہیں ٹارگٹ کیا گیا، اس کی تلافی کون کرے گا۔ اگر سابق وائس چانسلر اپلائی کرتے ہیں تو سرچ کمیٹیوں کو چاہئے کہ وہ ان سے اس جھوٹے سکینڈل کے کرداروں کے متعلق ضرور پوچھیں، ان کی رائے لیں، بلکہ جتنے سابقہ وائس چانسلرز رہے ہیں ان سے پوچھیں کہ سابق وائس چانسلر نے جامعہ اسلامیہ کو تعمیر و ترقی کی جو نئی جہت دی ہے کیا وہ چار سالوں میں ممکن تھی؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ اس انسان نے ناممکن کو ممکن کردکھا یا ہے تو پھر انہیں کسی بڑی یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کیا جائے اور انہیں فری ہیڈ دیا جائے تاکہ وہ نظام کو بہتر کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ حکومت پنجاب اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی چاہئے کہ اس سکینڈل کے سبھی کرداروں کو بے نقاب کرے اور جنہوں نے جان بوجھ کر اس سکینڈل کو اچھالا ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہاولپور جنوبی پنجاب کا دور افتادہ علاقہ ہے۔یہاں ہائر ایجوکیشن کے لئے بڑے مسائل ہوتے ہیں۔ مثلا بچیوں کی تعلیم والدین کے اعتماد سے مشروط ہوتی ہے۔ جس انداز میں سوشل میڈیا پر ایک جھوٹا سکینڈل اچھالا گیا۔ جس طریقے سے اسلامیہ یونیورسٹی کا مثبت امیج داغدار کیا گیا۔ اس نے والدین کا اعتماد متزلزل کردیا ہے۔ اب اس کی تلافی ہونی چاہئے۔ یہ اسی طرح ہی ممکن ہوسکتی ہے اگر مرکزی کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے جب سے وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے وہ یقینا بہترین کام کررہی ہیں۔پاکستان تحریک ِ انصاف مسلم لیگ نواز کی سخت مخالف جماعت ہے مگر مریم نواز شریف نے عہدہ سنبھالتے ہی تحریک ِانصاف کو مثبت جیسچر دیا ہے اور سبھی کو ساتھ ملا کر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک ِ انصاف کی قیادت بھی سوشل میڈیا کی حد تک ان پر تنقید کررہی ہے مگر اندر سے انہیں بھی احساس ہورہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب الیکشن لڑنے سے پہلے والی سیاست دان نہیں ہیں۔ یہ ملک میں جمہوریت کے لئے بہترین اور بروقت عمل ہے جسے جاری رہنا چاہئے۔