عین اس دن جب جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے رجوع کیا دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک کی ایک فہرست جاری ہوئی جس میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کوئی ملک عالمی سطح پر کس درجے بندی پر فائز ہے۔ اس میں فوج اسلحے کے ڈھیر یا امارت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مختلف وجوہات کو مدنظر رکھا گیا ہے جیسے معاشی اثرورسوخ، معیار زندگی اور سماجی مقاصد کے معیار وغیرہ۔ دس ٹاپ ممالک میں تو یورپی ممالک اور امریکہ شامل ہیں مگر اس درجہ بندی میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔وہ ٹاپ ٹین میں نہیں مگر سماجی مقصد کے معیارات کی رو سے اسے عالمی درجہ حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے اعلٰی مقاصد کی خاطر وہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں پہنچا ہے۔مذکورہ سروے یا رپورٹ میں سترہ ہزار سے زیادہ شرکاء سے رابطہ کیا گیا ہے اور جاننے کی کوشش کی جا سکے کہ عالمی سطح پر قوموں کو چھوٹا بڑا کس معیار پر سمجھا جاتا ہے اور قوموں کو کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ یہ سروے اور اس کے نتائج معاشی اثر و رسوخ اور کاروباری ماحول سے لے کر معیار زندگی اور سماجی مقصد تک کے معیارات کی ایک وسیع صف کے ساتھ متعدد میٹرکس پر مبنی ہیں۔انہی مقاصد اور معیارات اور اپنی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے عالمی عدالت انصاف میں اپنا اہل ِغزہ کا اور تاریخ کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا نے 11 جنوری کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے پر بحث کرنے کے لیے ایک اعلیٰ قانونی ٹیم کی قیادت کی۔ جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بلا امتیاز انتقامی بمباری اور غزہ کا محاصرہ نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ کم از کم دس ہزار بچوں سمیت تئیس ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ کی قانونی ٹیم نے اچھا کیس پیش کیا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات نسل کشی ہیں۔ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ اسرائیل ایک جارح ملک ہے اور اس کی لڑائی حماس سے ہے۔اہل ِغزہ اور معصوم بچوں خواتین اور عام شہریوں سے نہیں۔اسرائیل باقاعدہ نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام ِمتحدہ نے نسل کشی کی جو تعریف متعین کی ہے اسرائیل وہ سارے جرائم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن نے نسل کشی کی تعریف پانچ اصول متعین کیے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی سرزد ہو تو اسے نسل کشی میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ پانچ کام کون سے ہیں؟ اگر حملہ یا جارحیت کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا گیا ہے۔ خاص گروپ کو قتل کرنے اسے شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانے، ایسے حالات زندگی مسلط کرنے جن کا مقصد گروپ کو تباہ کرنے پیدائش کو روکنے اور بچوں کو زبردستی گروپ سے باہر منتقل کرنے کے ہیں مگر یہی تو سارے کام دیدہ دلیری سے اسرائیل کر رہا ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر دواؤں اور خوارک کی ترسیل تک روک رہا ہے۔ضمیر کا پتھر جنوبی افریقہ کا ملک ہی اٹھانے کا اعزاز لے اڑا اور وہ یوں دنیا کے 195 ممالک میں ایک اسے ہی اسرائیل کی نسل کشی کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ امت ِمسلمہ (اقبال کے الفاظ میں امت ِمرحوم) کے پچاس ممالک میں سے کوئی بھی اسرائیل کی اس جارحیت کا کیس ہیگ تک نہیں لے جا سکا بلکہ زیادہ تر ممالک صْم بْکم کی حالت کا شکار ہیں اور لفظی مذمت بھی نہیں کر سکے۔امت مسلمہ زوال کی آخری حد کو چھو رہی ہے اور یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے پر عمل بھی نہیں کر سکی۔ 29 دسمبر کو جمع کرائی گئی اپنی درخواست میں پریٹوریا نے اسرائیل پر 1948 کے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کا الزام لگایا جس میں جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں فریق ہیں۔ معاہدے کے فریق ممالک کو جرم کو روکنے اور روکنے کا اجتماعی حق حاصل ہے۔جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں عام شہریوں کا قتل، خاص طور پر بچوں کا قتل، فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی اور بے گھری اور ان کے گھروں کی تباہی جنوبی افریقہ کا الزام ہے کہ متعدد اسرائیلی حکام کے اشتعال انگیز بیانات جن میں فلسطینیوں کو درجہ دوم کے انسانوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور انہیں اجتماعی طور پر سزا دینا یہ سب نسل کشی ہیں اور ارادے کا ثبوت ہیں۔ پچاس مسلم ممالک میں محض نو ممالک ہی جنوبی افریقہ کے ساتھ کھڑے ہو سکے ہیں ان میں ملائیشیا، ترکی، اردن، مراکش، ایران، بنگلہ دیش سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں ابھی انتالیس ممالک ایسے ہیں جو تماشا دیکھنے میں محو ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق، جنوبی افریقہ دنیا کا سب سے زیادہ معاشی طور پر غیر مساوی ملک ہے۔ جنوبی افریقہ میں امیر اور غریب کے درمیان فرق 1994 میں نسل پرستی کے خاتمے کے بعد سے مسلسل بڑھ رہا ہے، اور اس عدم مساوات کا معاشرے میں نسلی تقسیم سے گہرا تعلق ہے۔افریقہ کو عرف عام میں قوس قزح والی قوم کہا جاتا ہے۔یہ ایک غریب ملک ہے اور اس پر قرضوں کا بوجھ 266 بلین ڈالر ہے جو اپنے ملک عزیز کے قرضوں کے بوجھ سے دو گنا ہے۔سالانہ جی ڈی پی گروتھ کے حساب سے بھی افریقہ اس براعظم کے آخری صف میں ہے آئیوری کوسٹ اور تنزانیہ اور یوگنڈا جیسے ملک بھی اس سے کہیں بہتر ہیں۔ اس سال بھی جنوبی افریقہ کی گروتھ محض ایک فیصد ہی ہے۔تو جاننا ضروری ہے آخر وہ عالمی ضمیر کیسے بنا اور باقی ممالک بالخصوص مسلم ممالک کیوں حماس فلسطین یا اہل غزہ کے ساتھ کیوں کھڑے نہیں ہو رہے؟۔ کوئی ایک مغربی ملک نہ اہل غزہ کے ساتھ کھڑا ہے اور نہ جنوبی افریقہ کے سٹینڈ کے ساتھ۔یہی اصل تاریخ کا اختتام ہے کہ حوثیوں کے خلاف امریکہ اور برطانیہ اکیلے نہیں سعودی عرب اور قطر بھی ان کے ساتھ ہے۔بحیرہ احمر Red Sea کو فی الاصل خون سے لال کرنے کے لیے اتحادی طاقتیں اب وہاں میدان جنگ بنا چکی ہیں۔ ٭٭٭٭٭