حقائق پرکھنے کے زاویے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن حقائق آخر حقائق ہوتے ہیں، مورخ کا تعصب بھی حقائق کو جھٹلا پاتا ہے نہ چھپانے کا فن کارگر ثابت ہوتا ہے، سال، عشرے، صدیاں بیت جاتی ہیں اور آخر وقت کے ملبے تلے سے حقائق اپنا منہ باہر نکال کر نقارہ زن ہوتے ہیں:میری جان میں یہاں ہوں!تاریخ حقائق کا سینہ چاک کرتی ہے اور اس کا حاصل وہ سبق ہوتا ہے،جس سے روگردانی ہمارا المیہ ہے،بحران در بحران نے معاشرے کو اس کا خوگر بنا دیا ہے،معاشرتی سطح پر ہمارے رویے اور قول و فعل میں تضاد اس کے حقیقی عکاس ہیں،سال 1970ء اس مجموعہ گھٹن کا ایک ارتقائی آغاز تھا، ذہنوں میں نئی امنگوں کی کونپلوں نے ازسر نو جنم لینا شروع کیا لیکن ہم نے باغیچے کو ہی اجاڑ ڈالا، 1971ء کا سانحہ سقوط ڈھاکہ زخموں سے چھلنی وجود کو ایک درد ناک سبق دیتا تھا، کاش عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کر لیا جاتا اور منتقلی اقتدار کو روک کر ایسے فارمولے پر عمل نہ کیا جاتا، جس نے چمن کو اجاڑ دیا، حد حیف اتنے گہرے زخم کے بعد ملنے والے سبق کو بھی ہم نے پانے سے انکار کردیا، 1977ء کے انتخابات کے بعد پھر سارے سبق فراموش کردئیے، یہ بھی بھولا دیا کہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے اقتدار کا جو کھیل کھیلا اس کا سبق پسماندگی، ناامیدی اور صفر جمع صفر سے زیادہ کچھ نہ تھا، ایوب خان کے طویل اقتدار کا انجام گو کہ 1970ء کے انتخابات کے ذریعے جمہوریت کی جانب سفر کا آغاز ٹھہرا مگر مخترمہ فاطمہ جناح مادر ملت کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اپنائے گئے ہتھکنڈے اور آمریت کی طویل شام کے اثرات ہمارے وجود پر برقرار رہے اور یحییٰ خان کی آمریت میں مشرقی پاکستانی کے سانحہ کی صورت میں ہم نے پھر ثابت کیا کہ چاہ اقتدار بیلٹ سے زیادہ آمریت کی دلدارہ ہو چکی ہے، ستم بالائے ستم 1985ء تک جمہوریت کی نرسری میں عمل افزائش ماند پڑ گیا مگر غیر جماعتی بنیادوں پر جو سیاست کے دروازے سے اقتدار کا سرکس گزرا، وطن عزیز میں نظریاتی بنیادوں پر سیاست مفقود ہو کر رہ گئی، 1988ء اور 1990ء تک اقتدار کی رسہ کشی میں ہم سب یہاں تک بھول گئے کہ مطمع نظر کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد دوسرا سبق حاصل کرنے کی مسافت خاصی طویل ٹھہری اور پھر 1999ء میں اقتدار کے فریقین کو ایک زد پہنچی، حاصل کیے گئے سبق کا مجموعہ میثاق جمہوریت کے عنوان سے قوم کو سنایا گیا، 2007ء کے لیاقت باغ میں مخترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو جمہوریت کیلئے ایک قربانی مان کر قوم نے میثاقِ جمہوریت کے بندھن میں بندھی سیاسی جماعتوں سے نئے سفر کی امید باندھی مگر اب کی بار بھی میدان سیاست میں وہ ادھم مچا کہ خدا کی پناہ، قوم کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت کا رخ کرنے سے ایک سبق ضرور ملا اور وہ یہ تھا کہ ان روایت پسند سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کی توقع لاحاصل ہے، اس دوران سیاست میں پی ٹی آئی ایک بڑی قوت بن کر سامنے آ گئی، انتخابی عمل سے بیزار قوم نے نئی امنگوں کو پنپنے دیا، 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے اور پانامہ سکینڈل کی پاداش میں جو کچھ ہوا، وہ پوری قوم نے دیکھا، 2018ء میں عمران خان کی حکومت اور آخر کار 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم حکومت کا ناکام قیام؛ یہ مادر وطن میں تیسرا سبق تھا، جس کا مرکزی خیال اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا سیکھ ہی لیا جائے، پی ڈی ایم حکومت اپنی سیاست اور سیاسی بالادستی قائم کرنے کے زعم میں ملک و ملت کے ساتھ جو کر گئی، اس کا خمیازہ تاحال قوم بھگت رہی ہے اور اس بحرانی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائی، 8 فروری کے نتائج درحقیقت پی ڈی ایم حکومت کی غفلت اور نااہلی کیخلاف عوام کا ریفرنڈم تھا، افسوس مگر ہم اپنی تاریخ کا تیسرا سبق بھی پڑھ رہے ہیں نہ اسے پانے کے متلاشی ہیں، ایسے میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ازراہ تکلف استحکام پاکستان پارٹی اور ق لیگ کا اقتدار کا نیا فارمولا یعنی پی ڈی ایم پارٹ ٹو عوام کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، عوام اس صورتحال کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جبکہ خود ن لیگ کے کیمپ سے متواتر ایسا واضح پیغام ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ حکومت ڈیلور نہیں کر پائے گی، چند خاموش زعماء اسے ن لیگ کی سیاسی بربادی سے تشبیہہ دے رہے ہیں، ن لیگ بہرحال اس اقدام کو وطن عزیز کو کسی بحرانی کیفیت سے نبردآزما ہونے کا نام دے رہی ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ ایسا نہ کریں تو کس کی حکومت قائم ہوگی؟ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 8 فروری کو وہ 180 نشستوں پر کامیاب ہوچکی لیکن دھاندلی کے ذریعے ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا ہے؟ وہ فارم 45 یا کسی صورت میں ووٹوں کے 2014 ء کی طرز پر فرانزک کا مطالبہ کر رہی ہے، مبینہ دھاندلی پر ماسوائے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم تمام سیاسی جماعتوں کا موقف یکساں ہے، کیا ہماری تاریخ کے تین سبق ہمیں اس بات کی دعوت نہیں دیتے کہ طاقت کے استعمال کی بجائے اصل مسئلے کا خاتمہ کیا جائے تاکہ بحرانی کیفیت کا وجود باقی تک نہ رہے، کیا ایسا کرنا ممکن نہیں؟ شائد آسان ترین کام ہے لیکن ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے اور جس طرز کی حکومت کا قیام ممکنہ انداز میں سامنے لایا جارہا، یہ واضح اعلان ہے کہ انتخابات کی صورت میں جن مسائل، کشمکش اور عدم استحکام وغیرہ سے نجات کا خواب دیکھا جا رہا تھا، وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائیگا۔