دولت اور اقتدار کی ہوس انسان کو اس حد تک بے بس کردیتی ہے کہ وہ اس کے نشے میں مست ہو کر اپنی زندگی میں صرف اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر اپنی دولت اور اقتدار کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ ذرا اندازہ کریں کہ تین بار وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والا شخص اپنے وطن کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی آخری حدیں بھی پار کر گیا ہے۔ قوم کی بدقسمتی دیکھیں کہ پورا ملک اس نااہل ہوئے وزیراعظم اور اس کے سمدھی کی وجہ سے اقتصادی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ قوم کا ہر فرد آج مقروض ہے غیر ملکی قرضے اس قوم کے نصیب میں لکھ دیئے گئے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ قدرت کا قانون ہے کہ ہمیشہ چمن زندگی میں پھول بھی کھلتے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں‘ اس طرح غم اور ناکامیوں کے علاوہ خوشیاں اور کامیابیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں لہٰذا زندگی بلاشبہ ایک حیرت کدہ ہی ہوتی ہے اور پھر حیرت جب صدمہ بن جاتی ہے تو پھر ہوتا یہ ہے کہ انسان غوروفکر کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یقین جانیے کہ مجھے حیرت بھی ہوئی اور صدمہ بھی کہ جب میں نے میاں نوازشریف کا ممبئی حملے کے بارے میں بیان سنا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ تین مرتبہ مملکت پاکستان کا وزیراعظم رہنے والا شخص پاکستان دشمن ملک بھارت کی زبان بول رہا ہے جس دھرتی نے ہائوس آف شریف کو عزت سے نوازا‘ 30 سال تک اقتدار اس خاندان کے پاس رہا دن رات اس خاندان کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پورے ملک میں ان کے بزنس ایمپائر کو فروغ ملا‘ کوئی پوچھنے والا نہ تھا کہ یہ دولت کہاں سے حاصل کر کے انڈسٹریز کا جال پھیلایا جارہا ہے۔ کسی نے نہ پوچھا کہ لندن‘ دبئی اور دیگر ممالک میں آپ کے اثاثے‘ جائیدادیں اور اتنی زیادہ دولت کے انبار کس طرح لگ گئے؟ آپ کی اولادیں برطانیہ میں امیر ترین کاروباری افراد کا حصہ بن گئیں۔ یہ سب کچھ اسی وطن عزیز کی بدولت ہی ہوا۔ قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹی گئی اور اپنے ساتھ ملا کر بیوروکریسی کی ایک فوج کو بھی کرپٹ بنا دیا۔ افسران کو آئوٹ آف ٹرن ترقیاں دی جاتی رہیں۔ میرٹ نام کی چیز نہ رہی۔ صرف خوشامدی اور منظور نظر افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ تمام قومی ادارے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ جب قومی اداروں نے ہائوس آف شریف سے پوچھا کہ ذرا اپنی دولت کا حساب دیں‘ بیرون ملک اپنی جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ ان اثاثوں اور جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع کیا تھے؟ پاکستان سے باہر یہ دولت گئی کس طرح؟ کون لے کر گیا؟ وہ کون سے ہاتھ تھے جو قومی دولت لوٹنے میں برابر شریک تھے؟ اس کا جواب بھرپور انداز میں پارلیمنٹ کے فلور پر دیا گیا کہ ’’حضور یہ ہیں وہ ذرائع جن کے ذریعے ہم نے بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنائے‘‘ مگر جب عدالت عظمیٰ نے مصدقہ ذرائع کی تفصیل مانگی تو کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا گیا۔ ہائوس آف شریف کے اپنے خاندانی افراد کے بیانات میں ایک دوسرے سے مختلف نکلے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا۔ اصل حقیقت اب سامنے آ چکی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹی گئی ہے۔ قومی خزانے میں نہ صرف خیانت ہوئی ہے بلکہ قومی وسائل کا بے جا استعمال اور حکومتی مشینری کو ذاتی مفادات کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت وزیراعظم کے عہدے کا تین بار حلف اٹھایا گیا اور حلف کی روح کے مطابق قومی راز ہمیشہ قومی امانت ہی رہیں گے اور ان قومی رازوں کی مرتے دم تک حفاظت ہو گی۔ اب اس کی کھلی خلاف ورزی تین بار وزیراعظم رہنے والی شخصیت کر رہی ہے۔ صرف اس بنا پر کہ اسی آئین پاکستان کے قوانین کے مطابق عدالت عظمیٰ یہ تقاضا کر رہی ہے کہ بتایا جائے کہ قومی دولت کیونکر لوٹی گئی؟ اب شواہد سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ نااہل ہوئے وزیراعظم ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ اقتدار بھی بچ جائے اور خاندانی دولت بھی کسی طرح بچ جائے۔ اب کوئی راستہ نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ قومی اداروں کو بدنام کیا جائے اور پھر عوامی جلسوں میں آ کر سادہ لوح عوام کو مزید بیوقوف بناتے ہوئے کہا جائے کہ میرے سینے میں بہت راز ہیں‘ میں یہ راز اگل دوں گا۔ یہ قومی راز مملکت پاکستان کی امانت ہے‘ ان رازوں کو افشا کرنا ملک و قوم کے ساتھ کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔ حیرت تو اس وقت بھی ہوئی تھی کہ جب مملکت پاکستان کے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’ہم پاکستان اور بھارت کے رہنے والے ایک جیسا لباس پہنتے ہیں‘ ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں تو پھر یہ درمیان میں لکیر کیسی؟ ملاحظہ فرمائیں کہ تین بار وزیراعظم رہنے والا شخص جس لکیر کی طرف اشارہ کر رہا تھا اسی لکیر کے طفیل ہی وہ مملکت پاکستان کا وزیراعظم بنا‘ ورنہ بھارت متحد رہتا تو آج نہ وہ اس مملکت کے وزیراعظم بنتے اور نہ ہی اس سرزمین پر ان کی اتفاق انڈسٹری اور دیگر بزنس ایمپائر قائم ہوتیں اور پھر نہ ہی یہاں ’’جاتی امرا‘‘ ہوتا نہ ہی پنجاب میں ان کے بھائی کی حکومت ہوتی۔ ہائوس آف شریف نے بلاشبہ قومی دولت تو لوٹی ہی ہے مگر اس خاندان کو بھارت نواز مشیروں اور خوشامدی صحافیوں کے علاوہ قلم قبیلے کے وظیفہ خور افراد نے بھی گھیر رکھا ہے جوکہ اس خاندان کی دولت کے بل بوتے پر پروان چڑھے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ حق نمک ادا کرتے ہوئے قومی سلامتی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ نااہل ہوئے وزیراعظم کبھی بھی کتابیں پڑھنے کے شوقین نہیں رہے۔ حتیٰ کہ اپنی تقاریر بھی اپنے خوشامدی قلم قبیلے کے منظور نظر افراد ہی سے لکھواتے ہیں۔ یہ ہی بڑی وجہ ہے کہ وہ اب جس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں وہ انہیں لے ڈوبا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ناہل ہوئے وزیراعظم نے نہ تو کبھی جنرل (ر) اسلم بیگ کو برداشت کیا۔ بطور وزیراعظم ان کی نہ تو جنرل آصف جنجوعہ سے بنی۔ اسی طرح جنرل وحید کاکڑ سے لے کر جنرل جہانگیر کرامت اور پھر (ر) جنرل پرویز مشرف تک ان کا ایک ہی رویہ رہا ہے کہ افواج پاکستان کے سپہ سالار ان کے سامنے آئی جی پولیس یا سیکرٹری بن کر ان کی بھرپور تابعداری کریں۔ جنرل راحیل شریف اور اب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی کوئی خوشگوار تعلقات نہ تھے حتیٰ کہ فوجی جرنیل کے سلیوٹ کرنے یا نہ کرنے کے عمل کو بھی پروٹوکول کا حصہ بنا کر مسائل میں اضافہ کیا گیا جس طرح جنرل ضیاء الدین بٹ کو وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر افواج پاکستان کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ بھی تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کی سیاسی بصیرت اور افواج کے بارے میں اعلیٰ سطح کی حکمت عملی کا انوکھا نمونہ ہے جوکہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ان کی قابلیت پر سوالیہ نشان اٹھاتا رہے گا۔ پاکستان کی سیاست میں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو‘ میاں ممتاز دولتانہ‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ پروفیسر غفور احمد اور شیرباز مزاری کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جوکہ کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے اور خود ان لوگوں کی اپنے گھروں میں لائبریریاں بھی تھیں جن میں کتابوں کا انتہائی اہم ذخیرہ موجود تھا جن میں عالمی امور کے علاوہ ملکی مسائل اور سیاسی امور پر انتہائی اہم معلوماتی کتابوں کے علاوہ اہم دستاویزی پیپرز بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اب جبکہ قومی انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ اس موقع پر قومی اتحاد کا شیرازہ بکھیرنے کی جو کوشش خود میاں نوازشریف نے کی ہے اس سارے عمل کو سیاسی کھیل بگاڑنے کی سازش کہا جائے یا ہائوس آف شریف کی حماقت کہا جائے۔ بہرحال تین بار اس مملکت کے وزیراعظم رہنے والے شخص اور ان کے قریبی مشیروں سے خصوصی گزارش ہے کہ ازراہ کرم ہائوس آف شریف کے حوالے سے چند غیر ملکی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ ان کتابوں کا کم از کم مطالعہ ضرور کرلیا جائے۔ ان کتابوں میں کرپشن کے علاوہ پاکستان میں حصول اقتدار کے لیے شریف برادران نے جو جتن کئے اور امریکی حکومت کو پاکستانی سیاست میں مداخلت کی نہ صرف دعوت دی بلکہ امریکی حکام سے بار بار کہا گیا کہ ہمارا اقتدار قائم رکھنے کے لیے ہماری مدد کی جائے۔ امریکی صحافی Steve Coll کی کتاب Ghost Wars کے صفحات نمبر 439 سے لے کر 490 تک پورے کا پورا حصہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اسی طرح ایک اور امریکی صحافی Kim Barker کی کتاب The Taliban Shuffle کے صفحات نمبر 246 سے لے کر 256 تک انتہائی دلچسپ معلومات موجود ہیں جوکہ خاص طور پر میاں نوازشریف کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ قابلیت کے حوالے سے تفصیلات پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ Raymond W.Baker کی کتاب Capitalism's Achilles Heel۔ یہ دلچسپ کتاب ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی کرپشن کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 77 سے لے کر 87 تک یہ تمام کا تمام حصہ پاکستان کے حوالے سے ہے۔ ان تینوں کتابوں کے حوالے سے میں نے اپنے مختلف کالموں میں تذکرہ کیا تھا اور ان کی تفصیل بھی بتائی تھی۔ موجودہ حکومت کی زندگی چند دنوں پر محیط ہے۔ قوم بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔ یقینا قوم کو حکمران خاندان کے بارے میں حقائق جاننے چاہئیں اور قومی اداروں کو بھی کم از کم ان کتابوں سے اہم معلومات حاصل کر کے آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے کہ کون کیا ہے؟ کس کا ماضی کیا رہا ہے؟ اور پھر ہمارے حکمران اپنے اقتدار کی خاطر امریکہ اوربرطانیہ کی مدد کیوں چاہتے ہیں؟ پاکستان کے مفادات پر غیر ملکی قوتوں کو کیوں فوقیت دی جاتی ہے؟ اقتدار میں آ کر ان قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ان پر اب غور کرنے کی ضرورت ہے۔