کرہ ارض پر پون صدی سے ارض فلسطین پر مظلوم فلسطینی مسلمان اپنی آنکھوں میں بسائے خوابوں کی تعبیر پانے ، فضائوں سے نور اترنے اوراندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظارمیں جابر،غاصب اورظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔وہ حق وصداقت کا علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بار باراور صدا بلند کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امہ نے فلسطینیوں کواسرائیل کے سامنے پھینک دیا ہے ۔عرب حکمران تو پیٹھ دکھا کر اہل فلسطین سے غداری کے مرتکب ہو چکے ہیں اور وہ اسرائیل کے بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقصان ہیں۔ اگرکسی کوکوئی شک ہے توسوشل میڈیا پر وائرل کئی ویڈیوز کا نظارہ کریں۔وہ اب اہل فلسطینیوں کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ خامخواہ ہماری دوری واقع ہوئی تھی۔ عرب حکمرانوں کی مردہ ضمیری کوچھوڑیئے لیکن کیا اب عجم کے مسلمان بھی اہل فلسطین سے منہ موڑ گئے ہیں ۔ پوری امہ مسلمہ ارض فلسطین سے ارض کشمیرتک مسلمانوں کے کٹتے مٹتے ہوئے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہی ہے۔مگر ان پرسکوت مرگ چھایا ہوا ہے۔ حماس کے اس تازہ آپریشن کو سمجھنے سے قبل اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ سرزمین فلسطین پر 1948ء میںبرطانوی سازش کے تحت اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی جاتی ہے اورامریکہ اوریورپ اس کے پشت بان ہوکر اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تب سے اب تک اسرائیل اس سرزمین پر اپنا ناجائز قبضہ اس قدر بڑھاچکا ہے کہ اس سرزمین کے اصل مکینوں کو پائوں پھیلانے کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ اسرائیلوں کی آبادکاریوں میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلاگیا اورصورتحال یہاں تک جاپہنچی ہے کہ فلسطینیوں کے لئے کچھ بچا ہی نہیں ۔جب صورتحال یہ ہو تو پھر مارو یا مرجائو آخری آپشن بچتا ہے جس پرحماس گامزن ہوچکی ہے ۔ 7 اکتوبر2023ء ہفتے کی صبح قابض اسرائیل کے خلاف حماس کی جانب سے غزہ سے اب تک کا سب سے بڑا آپریشن کیا گیا ہے جسے ’’طوفان الاقصیٰ ‘‘کا نام دیاگیا ۔ حماس کی جانب سے قابض اسرائیل کے خلاف اس آپریشن کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ حماس کے مجاہدین نے اس جبری اورناجائز باڑ کو مختلف جگہوں سے کاٹا اور غزہ سے اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے۔ حماس کی طرف سے سوشل میڈیا پر ویڈیوزشیئر ہو رہی ہیں جن میں حماس کے اراکین اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کو غزہ میں یرغمال بنائے ہوئے ہیں اوراسرائیلی فوج کے کئی کمانڈر ہلاک کردیئے جبکہ فوجی اسلحے اورفوج کی بکتر بند جیپوں اور گاڑیوں پرقبضہ لیا گیا۔ابھی تک کوئی حتمی اورمصدقہ اعدادو شمار نہیں ہیں کہ حماس نے کتنے اسرائیلیوں کو حراست میں لیا ہے۔ تاہم امریکہ میں اسرائیلی سفارتخانے نے سوشل میڈیا پر ’اغوا‘ کیے جانے والے شہریوں کی تعداد 100 بتائی ہے۔ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ حماس نے بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ شبہ ہے یرغمال بنائے گئے شہریوں میں سے کچھ مار دیے گئے ہیں جبکہ کچھ ابھی زندہ ہیں۔ ترجمان کے مطابق یہ چیز جنگ کے مسقبل کے خدوخال کو طے کرے گی۔ حماس کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے اسرائیلیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور انھیں غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔اس کارروائی کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ میں فضائی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی جس کے باعث سینکڑوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ یہ دراصل حماس کی طرف سے ایک بڑا ردعمل تھاکیونکہ حالیہ ایام میں قابض اسرائیلی فوج نے درجنوں کارروائیاں کی ہیں اور مسلح آباد کاروں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فلسطینی گاؤں پر حملے کیے ہیں۔اس دوران اسرائیل کی دائیں بازو کی سفاک نیتن یاہو کی قاتل حکومت میں موجود اراکین کی طرف سے بار بارکہاجا رہا تھا کہ مقبوضہ فلسطین کے سارے علاقے مکمل طور پر یہودی سرزمین کا حصہ ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کارروائی مقبوضہ بیت المقدس میں موجود مساجد کو لاحق خطرے کے باعث کی۔ گزشتہ ہفتے کے دوران یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں جا کرعبادت کی تھی جو ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کا یہ فعل فلسطینیوں کے لیے بہت زیادہ اشتعال انگیز ہے۔حماس کے آپریشن کا بتاتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک کی جاتی رہی۔ حماس کا یہ آپریشن ان عرب ممالک کے لئے الارامنگ ہے کہ جنہوں نے مسجد اقصیٰ اوراہل فلسطین کو اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کررکھے ہیں اوربعض کرنے جارہے ہیں کیوں کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ بات کھل کرسامنے آئی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات جڑنے جارہے ہیں اورامریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ترجیحات میں سے یہ سرفہرست ہے۔لیکن اب حماس نے آپریشن کرکے یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ مسجدالاقصیٰ کاپنجہ یہود میں ہونے اورسرزمین فلسطین پر جبری قبضے کے دوام کی صورت میں عرب اسرائیل تعلقات استوارہونا ناممکن ہے ۔ کئی بین الاقوامی رپورٹس میںجو اعدادو شماربتائے جاتے ہیں ان کے مطابق 1948ء میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندراوراسے باہرایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ان اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جو اس وقت فلسطین کی سرزمین پرموجود ہیںکی کل آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور ان میں فلسطین کے اندر پناہ گزین فلسطینی شامل ہیں ۔