مملکت خداداد حادثوں کی زد میں ہے اور حادثے دیکھ کر آنکھیں بند کرنے یا بھاگ جانے کا چلن عام ہوا ہے۔ یہ اڑھائی صدیاں ادھر کی بات ہے۔بھاپ سے چلنے والا بحری جہاز1862 میں تیار ہوا جسے بعد میں سلطانہ کا نام دیاگیا۔ یہ امریکی شہر نیو اور لینز سے ۲۱ اپریل ۱۸۶۵ء کو چلا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ بد ترین خانہ جنگی کا شکار تھا۔1861سے1865ء کے سال امریکی تاریخ کا خونیں باب ہیں ۔ ریڈ انڈینز امریکی جبر کا شکار تھے۔ یہ ابرہام لنکن کا دور تھا۔ جس کے ایک پیش رو صدر مارٹن وان نے کہا تھا۔’’ کوئی ریاست اس وقت تک قابل قدر ثقافتی اور تہذیبی ترقی نہیں کر سکتی جب تک ریڈ انڈینز کو زندہ رہنے کی اجازت ہو۔‘‘ امریکہ میں خانہ جنگی کے بادل اگرچہ ہر طرف منڈلا رہے تھے ۔ لیکن اس بحری جہاز میں ڈر سے سہمے امریکن بھی موجود تھے‘ جنہوں نے کئی لہو رنگ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ یہ خانہ جنگی کے آخری دن تھے۔ جنرل لی نے ہتھیار ڈال کر شکست تسلیم کر لی تھی اور بے شمار یونین فوجیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ سلطانہ نامی بحری جہاز کا اپنا وزن 1720ٹن تھا جب کہ اس میں 180 افراد سوار ہوئے ‘لیکن عملے نے لا تعداد شکر کے تھیلے ‘ ایک سو کے قریب گھوڑے ‘ موٹے تازے سؤر اور ایک دس فٹ لمبا مگر مچھ بھی لاد دیا ۔سفر جاری تھا کہ راستے میں جہاز کے کپتان کو کچھ خرابی کا احساس ہوا ۔ ۔ انجینئرز نے بتایا کہ سلطانہ کے ایک بوائلر میں شگاف پڑ چکا ہے جس کی وجہ سے ایندھن خارج ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک صورت حال ہے ۔چنانچہ کچھ وقت میں اس کی مرمت کر دی گئی ۔یہاں سے دو ہزار چار سو ایسے فوجی لادے گئے جو ابراہم لنکن کی حکومت نے خانہ جنگی کے باعث گرفتار کیے تھے ا ۔ عملے کی لاپرواہی کے باعث وزن کی باقاعدہ فہرست تیار نہیں کی جا سکی۔ عملے کو شدت سے غلطی کا احساس ہوگیا ۔ دو روز بعد جب یہ اگلے پڑائو پر پہنچا تو کچھ لوگ خوف کے باعث سلطانہ سے اتر گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کی اطاعت نہیں کی جا رہی اور جب ایسا ہوتا ہے تو زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ٹینی سی بندر گاہ پر اترنے والوں میں ایک فرد مالگن بھی تھا ۔ اس نے جہاز کی طرف رخ کر کے لوگوں سے کہا … ’’ موت وقت پر آتی ہے لیکن موت کے اسباب ہم خود مہیا کرتے ہیں ۔ اس جہاز میں موت کے تمام اسباب ہم نے اکٹھے کر لیے ہیں ۔‘‘ ادھر کچھ لوگ اترے ادھر انجینئرز نے بتایا کہ اس کا بوائلر دوبارہ لیک ہو چکا ہے ۔چنانچہ یہاں ایک بار پھر مرمت کی گئی ۔ایندھن بھرا گیا اور سفر شروع ہو گیا ۔ ۲۷ اپریل ۱۸۶۵ء کی سہ پہر دو بجے سلطانہ کا بوائلر لیک کرتے دھماکے سے پھٹ گیا ۔ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ اس میں سوار لوگوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ٹکڑے ہوا میں تیرنے لگے ۔متعدد افراد سمندر میں غرق ہونے لگے ۔ سلطانہ میں آگ کے شعلے لپکے تو اکثر لوگوں نے خوف کے مارے سمندر میں چھلانگیں لگا دیں ۔ شپ میں سوار فوجیوں میں سے بیشتر فوجیوں کو تیرنا نہیں آتا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کی پیٹھ پر بیٹھنا شروع کر دیا جو تیر رہے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب ڈوب گئے ۔ رات ہو گئی جہاز کا اگلا حصہ جس میں کم و بیش سات سو فوجی جمع تھے ہوا کا رخ بدلا تو اس میں بھی آگ لگ گئی ۔ انہوں نے سمندر میں چھلانگیں لگائیں تو چند کے سوا باقی ڈوب گئے ۔ اس بد ترین حادثے میں پندرہ سو ستاون افراد غرقاب ہوئے ۔ ایک فوجی جس کا نام سمر وائل تھا وہ جہاز میں سویا ہوا تھا ۔نیند کے دوران وہ دھماکے سے دور جا گرا ۔ ہاتھ پائوں مارتے وہ کسی طرح کنارے لگ گیا ۔ اس نے بتایاکہ جب وہ باہر نکلنے کی جدوجہد کررہا تھا تو اس نے دیکھا بہت سارے لوگ ایک گھوڑے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے اور وہ وزن سہارا نہ سکا ۔چنانچہ گھوڑے سمیت لوگ ڈوب گئے ۔پھر اس نے ایک اور آدمی دیکھا جو ایک تختے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا ‘اس کا چہرہ جھلس گیا تھا ‘پھر بھی وہ ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ وہ رو نہیں سکتا تھا نہ چیخ سکتا تھا۔سمر وائل نے بتایا بہت سارے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ بال اور دیگر اعضا پکڑ کر باہر نکلنا چاہ رہے تھے لیکن ایک دوسرے کو لے ڈوبے ۔ ’’ اس حادثے کا المناک پہلو کیا ہے ؟ سمر وائل کا جواب یہ تھا۔ ’’ خانہ جنگی کے ستائے لوگ ‘ ایک دوسرے کو سہارا نہ دے سکے ۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ یہ حادثہ دیکھ کر لوگ عبرت نہیں پکڑ سکے ۔ زیادہ بوجھ بڑے سے بڑے شپ کو لے ڈوبتا ہے ۔‘‘ تاریخ کہتی ہے کہ ابراہم لنکن خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اس کا قتل حادثے سے دس روز قبل ہوا تھا ۔یہ حادثہ میڈیا کی توجہ حاصل نہ کر سکا ۔یہ دنیا کا ایسا حادثہ تھا جسے ’’ عبرت کا نشان ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔ دوسرے پڑائو پر جہاز کی صورت حال دیکھ کر اترنے والے مالگن نے حادثے کے بعد لکھا۔’’ جو قومیں قانون کو اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہیں ‘ حادثوں سے سبق نہیں سیکھتیں ‘آزمائش کے لمحے دیکھ کر بھاگ جاتی ہیں اور سانحوں کے مقابل کھڑی ہونے کے بجائے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کر دیتی ہیں ‘ان کے بحری بیڑے بوائلروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔‘‘زندہ انسان کا المیہ ہے کہ وہ ان دیکھے حادثوں کی زد میں رہتا ہے ۔ حادثوں سے بڑھ کر سانحے ہوتے ہیں جب لوگ حادثہ دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭