جمہوریت کا سفر اپنے آزاد پنکھوں پر ہوتا ہے۔ جب پرندوں کو پنجروں میں رکھا جاتا ہے تو لا شعوری طور پر وہ پنجرے دراصل دلوں میں بن جاتے ہیں۔ پنجروں کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر لہو رسنے لگتا ہے۔ جب قید انتہاؤں پر پہنچ جائے تو پھر ٹوٹے ہوئے کمزور پَر پھڑ پھڑانے لگتے ہیں۔ جب قیدی پرندوں کی ڈاریں نکلتی ہیں تو فضاؤں میں رنگ اور آزادی بکھرنے لگتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ماحول اس دفعہ آٹھ فروری کے انتخابات میں دکھائی دیا۔ جمہوریت کا مطلب شہریوں سے ہے۔ کسی بھی ملک کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرے۔ اپنے ووٹ کو ضائع ہونے سے بچائے کیونکہ ووٹ قوم کی امانت ہے۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے دیانت دار نمائندوں کا درست چناؤ کرے۔ اس سے پیشتر انتخاب ہمیشہ ذات، برادری اور گروہوں کو مدِّ نظر رکھ کر کیا جاتا تھا۔ مگر اس دفعہ لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور انہوں نے ذات، برادری سے مبّرا ہو کر اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔ سیاست بلاشبہ عوامی خدمت اور فلاح و بہبود کے کاموں میں حصّہ لینے کا نام ہے۔ یوں بھی ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنائے تا کہ ایک فلاحی معاشرہ قائم ہو سکے۔ عام شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دے۔ اس سے زیادہ کڑی ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ عام شہری سے ایک درجہ اوپر ہوتے ہیں۔ طاقت کی لگامیں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اس دفعہ عوام نے اپنے ووٹ کے انتخابی نشانات ڈھونڈ ڈھونڈ کر ٹھپے لگائے۔ عوام جان چکے ہیں کے جنگ ختم ہو گی تو بْھوک ننگ بھی ختم ہو گی۔ عوام نے ثابت کر دیا کہ اب پرانا دور نہیں رہا۔ اب ہم 2024 میں زندہ ہیں۔ مگر یہ جو رات کا اندھیرا ہوتا ہے ناں اس میں ہی سارے گناہ کیے جاتے ہیں۔ گناہ کرنے والوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کائنات کا خالق تو سب دیکھ رہا ہے لوگ دیکھیں یا نا دیکھیں۔ کسی نا معلوم شاعر کا شعر جو مجھے بہت پسند ہے: شام ہوئی کوچہ کلس پر دیپ جل اْٹھا جاگے گناہ سویا خد لو رات ہو گئی رات گئے تک نتائج کچھ اور تھے صبح ہوئی تو غار میں سونے والوں کی طرح سب کچھ بدل گیا۔ آٹھ فروری کا دن بلا شبہ ایک روشن دن تھا۔ عوام اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے نکل پڑے۔ دہائیوں سے چاروں طرف چھائی ہوئی محکومی کی راتوں کو وہ روشنیوں میں بدلنا چاہتے ہیں۔ مگر تا حال نتائج جاری ہیں جس وجہ سے صورتِ حال مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ حلقہ 128 کے سلمان اکرم راجہ نے نتائج کو رْکوا دیا ہے کہ بقول ان کے وہ 80 ہزار کی لیڈ سے جیت رہے تھے انہیں اور ان کی بیگم کو پولنگ سٹیشن سے زبردستی نکال دیا گیا جبکہ ان کے پاس فارم 45 موجود تھے۔ اب یہ بات فارم 47 پر آ کر رْک گئی ہے۔ جو الیکشن کمیشن کی اندرونی لڑائی ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ اب ہیرا پھیری سے ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا۔ پی ٹی۔ آئی کی حمایت یافتہ عالیہ حمزہ نے جیل میں بند ہونے کے باوجود کمال کر دکھایا۔ بھاٹی لوہاری کا علاقہ جو ہمیشہ سے ن لیگ کا گڑھ رہا لوگوں نے وہاں سے انہیں مسترد کر دیا۔ ایک طرف تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس 150 سیٹوں کی اکثریت ہے وہ وفاق، پنجاب اور کے پی میں حکومت بنا سکتے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے بیشتر بڑے بڑے بْرج اْلٹ گئے۔ مانسہرہ سے وہ خود بھی نہ جیت سکے۔ اب تو امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی ہمارے الیکشن پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یو۔ این کے سیکرٹری گوتریس نے بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون بند ہوئے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مکمل چھان بین کا تقاضا کیا ہے۔ ایک اور اہم بات کہ امریکہ نے کہا ہے کہ ہم نئی آنے والی حکومت کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت اور اپنی شراکت داری کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔ اس دفعہ کا ٹرن آؤٹ52 فیصد کے لگ بھگ تھا جو حیران کن ہے۔ بے شک ایک کثیر تعداد میں ووٹ ڈالنا خوش آئند عمل ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا ہے کہ طاقتوروں نے ہر لحاظ سے ایک پارٹی کو دبانے کی ہر طور کوشش کی ہے مگر سب بے سْود۔ اب عوامی رائے کوکھلے دل سے پذیرائی ملنی چاہیئے۔ اگر ن لیگ پی پی پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے گی تو دوبارہ پی۔ ڈی۔ ایم والے برسرِ اقتدار آئیں گے۔ واضح رہے کہ حکومت تو امانت ہے۔ بحیثیت مسلمان روزِ قیامت حساب لیا جائے گا۔ ویسے بھی جمہوری ریاستوں میں تمام قوانین عوام کے احساسات کا آئینہ ہوتے ہیں۔ قانون شکنی کی صورت میں ظاہر ہے انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی یقیناً مستحکم سیاسی جماعتوں کے نظریات پر منحصر ہوتی ہے۔ 25مارچ 1948کو قائدِاعظم نے سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ اپنے جملہ فرائض قوم کے خادم بن کر ادا کیجیے۔ آپ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیئے۔ اقتدار کسی بھی جماعت کو مل سکتا ہے۔ آپ ثابت قدمی، ایمان اور عدل کے ساتھ اپنے فرائض بجا لائیں۔ اگر آپ میری نصیحت پر عمل کریں گے تو عوام کی نظروں میں آپ کے رتبے اور حیثیت میں اضافہ ہو گا۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی حکومت بنانے کے لیے پارٹیوں کو بیساکھیاں چاہئیں یا نہیں؟ اس دفعہ کے الیکشن کے نتائج چونکہ بہت ہی غیر متوقع ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں آئین کے مطابق انہیں کیا سرکاری پوزیشن ملے گی۔ اب یقیناً عوام چاہتے ہیں کہ یہ شعلے دب نہ جائیں۔ جو خوف کے سائے دلوں پر چھائے تھے وہ چھٹ چکے ہیں۔ عوام نے جمہوریت کے علم اٹھا لیے ہیں۔ اب پرانی رسمیں ترک کرنا ہوں گی۔