پاکستان کی سیاست کے اپنے انداز ہیں۔ اس کے ہیرو اور ولن سرکاری محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ جب وزیراعظم عمران خان پریڈ گراؤنڈ میں جیب سے ایک خط نکال کر اپنے پرجوش حامیوں سے مخاطب تھے تو سچ پوچھیں مجھے نہ جانے کیا کیا واقعات یاد آگئے۔ دنیا کی مشہور زمانہ خفیہ ایجنسیوں کی کارستانیوں' مختلف ممالک میں مداخلت' نت نئے نظریات کا پھیلاؤ' انقلابات کی کہانیوں' حکمرانوں کو نشان عبرت بنانے کے قصے' ایسی تمام وارداتوں کے پیچھے کب کس نے کیا کیا۔ سب کچھ تاریخ میں درج ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ 70 سالہ پاکستانی وزیراعظم کے خلاف آخر کیا سازش ہوئی۔ جس نے ان کے سیاسی زندگی میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ جس پر وہ اپنے جوشیلے حمایتیوں کو ساری صورتحال کا گواہ بنارہے ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر آخری حصہ ہی درحقیقت وہ ٹرمپ کارڈ تھا جس کا تذکرہ خود وزیراعظم اور ان کے وزراء اور مشیر کرتے رہے تھے۔ وزیراعظم کہہ رہے تھے کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ اس بین الاقوامی سازش میں بیرونی اور اندرونی کردار شامل ہیں۔ انہوں نے نو از شریف کا تذکرہ اس انداز سے کیا کہ ان کی ملاقاتیں لندن میں کئی لوگوں سے ہوئیں۔ لیکن وہ وضاحت سے نہ بتاسکے کہ ملک کے اندر ان کے مخالفین کو کون اکٹھا کررہا ہے۔ لکھا ہوا پڑھتے ہوئے وہ خاصا محتاط تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اندرون اور بیرون ملک کس طرح حکومتیں تبدیل ہونے کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر ان پر عملدرآمد کیا گیا۔ اس حوالے سے انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف سازش کا خاص طور پر ذکر کیا۔ربع صدی قبل ''گوادر'' کے عنوان سے لکھا گیا ایک کالم آپ کی نذر کرتا ہوں' جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا کیا کیسے کیسے ہوتا ہے۔ یہ کالم 9 جولائی 1998ء کو شائع ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب سربراہ مملکت کی حیثیت سے پہلی بار امریکہ گئے تو صدر نکسن نے اوول آفس کے دروازے پر ان کا استقبال کیا۔ دونوں نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک دوسرے کی اسمارٹ نیس کی تعریف ہوئی اور پھر دونوں ون ٹو ون ملاقات کیلئے میٹنگ روم میں چلے گئے۔ دس منٹ بعد دروازہ کھلا اور نکسن نے گردن نکال کر جذباتی لہجے میں کہا۔ مسٹر کسنجر اور مسٹر شبلنگر (کسنجر اس وقت وزیر خارجہ اور شبلنگر وزیر دفاع تھے) کیا آپ میری مدد کریں گے۔ دونوں وزراء اٹھے اپنی اپنی ٹائیاں درست کیں اور میٹنگ روم میں چلے گئے۔ دروازہ بند ہوا تو باون منٹ بعد کھلا' بھٹو صاحب باہر آئے تو بہت ڈیپریس اور تھکے تھکے تھے۔ اس رات آخری پہر جب پاکستانی سفارتخانے کی سرگرمیاں مدہم پڑچکی تھیں۔ زیادہ تر ملازمین آرام کیلئے جاچکے تھے تو ڈرائننگ ٹیبل پر صرف بھٹو صاحب فارن سروس کے چار سینئر اور ایک جوینئر آفیسر رہ گئے۔ بھٹو صاحب نے ٹانگ ٹیبل کے نیچے پھیلائے ذرا ترش روئی سے بولے ''یہ احمق امریکی بیل کی عقل لے کر پیدا ہوئے ہیں'' آفیسر نے چونک کر اوپر دیکھا۔ بھٹو صاحب کی آنکھوں میں خلاف معمول تھکن'بیزاری اور کوفت تھی۔ حاضرین سے نسبتاً سینئر نے آہستگی سے پوچھا ''اینی پرابلم سر'' بھٹو صاحب نے ٹانگیں تہہ کیں' سیدھے ہوکر بیٹھے اور ٹیبل پر مکا مار کر بولے ''میں نے نکسن کو آفر دی کہ تم گوادر میں اپنا نیول بیس بنالو۔ یہ کبھی مشرق کی کنجی بنے گا' لیکن بزدل روسیوں سے ڈر گیا'' بھٹو کے یہ فقرے سفارتکاروں پر بم کی طرح پھٹے اور ان کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ بھٹو صاحب تھوڑے توقف کے بعد پھر بولے ''کسنجر بھی بالکل گدھا ہے جب شبلنگرر نرم ہوا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا۔ امریکہ گزشتہ برس (72ء سے) روس کو ایک ایسی حد بندی پر قائل کررہا ہے جس سے وہ آگے بڑھے اور نہ ہم اسے پار کریں۔ ان حالات میں اگر ہمارا بحری بیڑا پرشین گلف (خلیج فارس) کے قریب پہنچا تو ایک بڑی جنگ شروع ہوجائے گی۔ بھٹو ذرا سے رکے اور پھر سامنے کپ سے کافی کا تلخ گھونٹ بھر کر بولے ''لیکن تم لوگ لکھ لو ان امریکیوں نے آج جو میری آفر ٹھکرائی انہیں یہ بالآخر قبول کرنا پڑے گی۔'' انہوں نے جذباتی انداز میں کہا لکھ لو '' امریکی بیس برس بعد گوادر ضرور آئیں گے۔'' اس گہری ہوتی رات سے ٹھیک چار برس بعد جب ملک میں پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی۔ سڑکوں' گلیوں اور چوراہوں میں بھٹو کے خلاف نعرے لگ رہے تھے تو امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کی ٹیبل کا وہ جونیئر آفیسر جو بھٹو نکسن ڈیل کا گواہ تھا۔ فارن آفس کے سب سے سینئر آفیسر کے گھر داخل ہوا۔ شی کرکے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور اسے باہر لان میں لاکر بولا۔ ''آغا جی بھٹو روس سے گوادر کا سودا کرچکا ہے اگر آپ ملک بچاسکتے ہیں تو بچالیں'' سینئر آفیسر پر یہ الفاظ قہر کی طرح ٹوٹے' وہ چکراکر بولا ''لیکن اس انفارمیشن کا سورس کیا ہے؟'' جونیئر آفیسر ذرا سا مسکرایا اور عادتاً پتلون کی جیب میں ہاتھ دے کر بولا ''سر اس کا سورس میں خود ہوں۔'' بھٹو نے میرے سامنے روسی سفیر کو بلاکر کہا ''آپ اپنے صدر کو مطلع کردیں اگر روس مجھے امریکیوں سے بچانے کیلئے ٹرینڈ گارڈز فراہم کردے تو میں انہیں گرم پانیوں کا خزانہ دے دوں گا۔'' سینئر آفیسر نے ہاتھ باندھ کر بے چینی سے لان کا چکر لگایا اور پھر گلاب کی کناریوں کے قریب رک کر بولا ''لیکن روسی گارڈز ہی کیوں'' جونیئر آفیسر دوبارہ مسکرایا اور بولا ''یہ سوال روسی سفیر نے بھی بھٹو سے کیا تھا'' سینئر آفیسر نے چونک کر اوپر دیکھا۔ جونیئر آفیسر نے ایک لمبا سانس لیا اور گویا ہوا بھٹو صاحب نے جواب دیا ''جس طرح سوئٹزر لینڈ کے فوجی روم آکر پوپ کی حفاظت کرتے ہیں' اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں روس میری حفاظت کی ذمہ داری قبول کرلے۔ کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے میں چاروں اطراف سے امریکی ایجنٹوں میں گھر چکا ہوں۔ (جاری ہے)