لاہور ہر اس شخص کا خواب ہے جو زندگی میں کچھ نیاکرنا چاہتا ہے‘ادب و صحافت یا پھر فنونِ لطیفہ میں۔میں نے بھی اوائل عمری میں یہ خواب دیکھا اور اس خواب کی تکمیل کے لیے لاہور کا رخ کرنے کا سوچا۔میٹرک کے بعد اپنے ہی ضلع میں کامرس میں داخلہ تو لیا مگر اس شعبے میں دل چسپی نہ ہونے کے باعث جلد ہی اسے خیر باد کہ دیا اور ’خوابوں کے شہر ‘لاہور پہنچ گیا۔لاہور آتے ہی پہلا مسئلہ نوکری کا درپیش تھا‘پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ تو کرنا تھا لہٰذا یہاں پہلے سے موجود احباب سے رابطے شروع کر دیے،خواہش تھی کہ کسی اخبار میں نوکری ملتی تاکہ کالم نویس بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جاتا اور روزگار کا دیرینہ مسئلہ بھی انجام کو پہنچتا۔ لاہور کے بارے میں بزرگوں کا کہنا ہے کہ لاہور ماں ہے اور کراچی باپ‘بیٹا بھوکا ہو تو ماں کو نیند نہیں آتی ‘میں نے بھی لاہور میں ایک ماں کا روپ دیکھا،نوکری نہیں تھی تب بھی دو وقت کی روٹی میسر رہی‘لاہور کو ماں کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کیوں کہ میں نے اپنے سمیت درجنوں بے روزگاروں کو لاہور میں پیٹ بھر کے روٹی کھاتے دیکھا‘اب بھی ایسا ہی ہے، سو لاہور میں کھانے کا مسئلہ نہیں تھا۔رہائش کا مسئلہ بھی کچھ دن رہا پھر وہ بھی حل ہو گیا اور مجھے ایک عزیز کے ریفرینس سے پرانی انارکلی میں ایک قدیم ہاسٹل میں سر چھپانے کو جگہ مل گئی۔پہلا ڈیڑھ ماہ نوکری کی تلاش میں گزرا‘جس اخبار میں بھی جاتا‘ایک ہی جواب ملتا کہ پہلے کچھ ماہ انٹرن شپ کرنی ہوگی یعنی تنخواہ کے بغیر نوکری‘خیر کچھ قریبی احباب سے مشورے کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ جہاں بھی جگہ ملتی ہے‘نوکری کا آغاز کیا جائے تاکہ کشتی کنارے لگنے کے اثرات تو نظر آئیں۔ نوکری کا مسئلہ حل کروانے میں برادر م عفیف طہٰ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔عفیف طہٰ گزشتہ پینتیس سال سے ایک اشاعتی ادارہ چلا رہے ہیں‘اس ادارے نے درجنوں نامور تخلیق کاروں کی پہلی پہلی کتب شائع کیں‘ایک زمانے میں شاعروں اور ادیبوں کے لیے اردو بازار میں بیٹھنے کی واحد جگہ یہی ادارہ تھا‘اس ادارے کی خوبصورتی یہ تھی کہ کوئی شاعر ہے‘افسانہ نگار یا صحافی،سب کے لیے یہ دفتر کھلا ہوتا تھا لہٰذا لاہور پہنچتے ہی میرا پہلا ٹھکانہ بھی یہی ادارہ بنا۔کچھ دن تو عفیف طہٰ کی میزبانی سے مستفید ہوئے ،پھر ایک دن وہ اپنے چھوٹے بھائی کفیل احمد کے پاس چھوڑ آئے جو ان دنوں ایک قومی اخبار میں چیف نیوز ایڈیٹر تھے اور دیگر اخبارات و جرائد میں بھی ان کی شناسائی تھی،انھوں نے ایک کالم نگار کے پاس بھیج دیا‘ وہ ان دنوں ایک اخبار میں ایڈیشن دیکھتے تھے لہٰذا ان کے توسط سے مجھے اسی اخبار میں سب ایڈیٹرکی نوکری مل گئی۔نوکری تو انٹرن شپ پہ تھی مگر مجھے اس لیے بھی معاوضے کے بغیر کام کرنے میں دقت نہیں تھی کہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا‘سحر و افطار اخبار کی طرف سے دفتر میں مل جاتا ،سو میں نے اس نوکری جوائن کر لی۔لاہور آئے توقریبی احباب سے معلوم ہوا کہ چوپال ناصر باغ اور انارکلی فوڈ اسٹریٹ میں شاعر ادیب بیٹھتے ہیں ۔ایک روز میں بھی چوپال جا نکلا‘انجمن ترقی پسند مصنفین کا اجلاس چل رہا تھا‘دروازے پر مرحوم رشید مصباح اور مرحوم آصف شیخ سے ملاقات ہو گئی‘انھیں جب اپنے آنے کا مقصد بتایا تو انھوں نے بانہیں کھول کر استقبال کیا اور مجھے مستقل اجلاسوں میں آنے کی ترغیب دی۔بس یہ لاہور کے کسی بھی شاعر یا قلم کار سے پہلی ملاقات تھی اور اس ملاقات سے ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو آج پندرہ سال بعد بھی جاری ہے بلکہ زیادہ شدت سے جاری ہے اور حلقہ احباب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میں چیزوں کی جزیات میں نہیں جاتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ سیلف میڈ آدمی کی زندگی جہد مسلسل ہے‘سیلف میڈ آدمی کا سفر تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور طویل بھی ،مگر اس سفر میں وہی سرخرو ٹھہرے جو آبلہ پائی کے باوجود سفر پر گامزن رہے اور جو سستانے کو ٹھہر گئے‘وہ کچلے گئے۔میں نے پندرہ سالہ ادبی و صحافتی زندگی میں بہت تلخ و شیریں تجربات کیے جن کو وقتاً فوقتاً آپ کے گوش گزار کرتا رہوں گا۔ رشید مصباح بہت دلیر آدمی تھی‘کمال کے افسانہ نگار اور متحرک آدمی۔ان کی تنقید بھی ان کے مزاج کی طرح شدید ہوتی ، کئی بار تو اجلاسوں میں مخالف سمت سے غصے میںکرسی بھی اٹھا لی جاتی تاکہ تنقید کے جواب میں سروں پر ماری جا سکیں مگر رشید مصباح تادمِ آخر اپنے اس رویے پر پوری شد و مد سے قائم رہے۔ دوست احباب ان سے کہتے بھی تھے کہ مصباح صاحب اپنے اندر کی تلخی سے دوستوں کو تکلیف نہ دیں مگر ان کا اپنا مزاج تھا۔جس کے ساتھ چلتے تو دل و جان سے چلتے اورجہاں کوئی بات ان کے مزاج کے خلاف ہو جاتی‘وہا ں ان کے غصے کو روکنا محال ہو جاتا ،آپ کے غصے کے حوالے سے کئی واقعات بھی مشہور ہیں مگر فی الوقت ان کا موقع نہیں۔ آصف شیخ مرحوم انتہائی بذلہ سنج اور مخلص دوست تھا‘دوستوں کا دوست اور دشمنوںکا بھی دوست۔میں نے کبھی شیخ کو کسی دوست سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا‘ان کے ساتھ کشمیر کا سفر بھی کیا اور لاہورمیں بھی ان کے ساتھ طویل وقت گزرا۔’سرخ چنار‘ کے نام سے وہ ایک پرچہ بھی نکالتے تھے‘ یہ پرچہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد جریدہ تھا جس سے اس دور کے کئی اہم لکھنے والے وابستہ تھے‘بائیں بازو کی تنظیموں میں یہ پرچہ بہت مقبول تھا۔میری آصف شیخ سے دوستی بھی اس پرچے کی وجہ سے مضبوط ہوئی‘مجھے اس پرچے کی پروف ریڈنگ کا اعزاز بھی حاصل ہے اور میری ایک نظم بھی اس پرچے کے لیے شیخ مرحوم نے لی تھی۔ میں جب بھی ماضی میں جھانکتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لاہور میں کیسے رابطے شروع ہوئے تھے‘رشید مصباح اور شیخ مرحوم ضرور یاد آتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭