پچھلے دو دن سے دل کچھ مغموم، اداس اور بے سمت سا ہے۔ بے نام سی اداسی سے طبیعت بوجھل ہو رہی ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا۔ مختلف اوقات میں بہت سی کتابیں بھی پڑھنا شروع کیں۔ مگر ذہن میں بے ہنگم سے خیالات آتے چلے گئے۔ دل موسم کی دْھند، ٹھنڈ اور اداسی میں ڈوبا ہوا ہے مگر وہ دل ہی کیا جو آسانی سے مان جائے۔ لہذا ہم نے دل کی باگیں کسیں۔ کچھ سختی کے چھانٹے مارے اور لکھنے کے لیے کاغذ قلم سنبھال لیا۔ سب سے پہلے چند کتابیں ذہن میں آئیں جیسے شیخ فرید الدین عطار کی " The Conference of the birds"' - میکسم گور کی کا ناول ’’ماں‘‘ سارا ماگو کا ناول ’’اندھے لوگ‘‘ الطاف فاطمہ کا ناول ’’دستک نہ دو‘‘ کئی بار پڑھا۔ ہر دفعہ پڑھنے کے بعد اتنا ہی لطف آیا۔ موضوع کے مختلف مطالب اور تہیں کھلتی گئیں۔ سمجھ میں آیا کہ موضوع اور الفاظ رنگوں کی وہ بند ٹیوبیں ہیں جن کو استعمال کرنے کا فن صرف اس فنکار کو آتا ہے جو رنگوں کی آمیزش سے ہْنر پارے تخلیق کرنا جانتا ہو۔ یہ خیال یوں آیا کہ ان دنوں ٹھنڈ اور وسائل کی کمی نے مل کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی ہیں۔ سونے پر سہاگہ کہ جبر کا موسم خوف کی تیز دھار تلواریں سونتے کھڑا ہے۔ لفظ لکھتے ہوئے دم سادھے رہتے ہیں کہ کہیں لکھنے والا یا لکھنے والی میرا ایسا استعمال نہ کر دے جو ارباب اختیار کی نظروں میں غلط ہو۔ اب بَھلا غلط او درست کا انتخاب کون کرے گا؟ سکول اور گھروں میں ابتدا ہی سے غلطیوں کی اصلاح کی جاتی رہی ہے۔ ابتدائی جماعتوں سے ہی اْردو اور انگریزی گرامر میں درست اور غلط جملوں کی مشقیں کروائی جاتی ہیں۔ ’’لالچ بْری بلا ہے۔‘‘ ’اتفاق میں برکت ہے۔‘‘ سانچ کو آنچ نہیں۔‘‘ ’’رحم دلی اور لالچ اکھٹے نہیں چل سکتے۔‘‘ خود غرضی پسندیدہ نہیں۔‘‘ ’’ہر کوشش اور محنت سے اچھا نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘ محنتی آدمی کے لیے اْمید کی ایک کرن ہی کافی ہے۔‘‘ ایسی اَن گنت کہانیاں پڑھائی جاتی رہیں اور آج دن تک پڑھائی جا رہی ہیں۔ نجانے پھر بیچ راہ میں ہم بھٹک کیسے گئے؟ اگر انسانی سماج کے ارتقا کو دیکھا جائے تو مختلف تہذیبوں نے ایمانداری، سچ اور جھوٹ کی بنا پر کئی کہانیاں، افسانے اور مزاحمتی ادب لکھا گیا۔ انگریزی کے مشہور شاعر JhonKeats سے پوچھا گیا کہ خوب صورتی کیا ہے؟ اسے تو ان چیزوں میں بھی خوب صورتی نظر آتی تھی جو عام لوگوں کے نزدیک حسین نہ تھیں۔ لیکن سائنس اور منطق کے نزدیک خوب صورتی اور سچائی کا طلسم وہ خوابیدہ خواہش ہے جو تلخ حقیقتوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے۔ دوسری طرف دنیا میں مزاحمتی ادب جتنا تخلیق ہوا اتنی ہی تحریکوں نے جنم لیا۔ اسی طرح ٹی۔ اسی ایلیٹ نے 1922میں اپنی نظم Land Wasteمیں لکھا تھا۔ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اس نظم میں شاعر پہلی جنگِ عظیم میں لگائے گئے زخموں، اموات دْکھ اور باقی بچ جانے والوں کی زندگیوں میں اْتری گہری تکلیفوں کو کھنگالتا ہے کہ جنگ میں پیچھے رہ جانے والوں کے دل درد سے کراہتے ہیں تو آنسوؤں کے بند ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان دنوں ایسی ہی صورت حال غزہ میں چل رہی ہے۔ دور جانے کی بات نہیں اس وقت وطنِ عزیز میں جَبر کا موسم چل رہا ہے۔ اوپر سے سیاسی تقسیم نے لوگوں کو آپس ہی میں بانٹ رکھا ہے۔ ایسے میں ترقی کی راہ پر کیسے چلے جائے گا؟ جب کہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہی اتنی تندو تیز ہو جائے کہ آپ پہچان ہی نہ سکیں کہ جھوٹ کیا ہے؟ سچ کیا ہے؟ اس سے یاد آیا کہ پہلے کبھی رکشاؤں کے پیچھے لکھا ہوتا تھا ’’سچے کا بول بالا جْھوٹے کا مْنہ کالا‘‘ لیکن اب یہ قول بدل چکا ہے۔ اب سچ بولنے والوں کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں۔ زندگی کی راہوں میں جب سنڈریلا کے رقص کرنے کی باری آتی ہے تو ہمارے سماج میں عورتوں کے لیے گھڑیال کا گھنٹہ بارہ کی بجائے گیارہ بجے ہی بول اْٹھتا ہے۔ سچ کا جادو جیسے سر چڑھ کر بولنا چاہیئے وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو مزاحمتی ادب تخلیق کرنا چاہیئے۔ میرے نزدیک عوام اس وقت جتنی یکجا ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس مغموم اور اداس موسم میں مجھے پاکستان کے وہ دل نشین شاعر یاد آ رہے ہیں جنہیں ہم مْنیر نیازی کے نام سے جانتے ہیں۔ مْنیر نیازی صاحب نے زندگی کے زیادہ تر حصے میں بس شاعری ہی کی۔ آج مجھے ان کا یہ قطعہ یاد آ رہا ہے: اْگا سبزہ درو دیوار پر آہستہ آہستہ ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ منیراس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ یہ بالکل ہمارے حسبِ حال ہے کہ وطنِ عزیز میں حرکت تو تیز تر ہو رہی ہے مگر اس میں برکت نہیں۔ سفر تو جیسے رْک سا گیا ہے۔ جتنے قدم آپ آگے چلتے ہوئے کسی سنگِ میل کے پاس پہنچیں اور فاصلہ ماپیں تو آپ وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے جذبات کو مہنگائی اور غم روز گار کے زہریلے سانپوں نے لپیٹ رکھا ہے۔ راستوں میں بڑی بڑی فصلیں کھڑی ہیں۔ یہ جبر کا موسم آخر کب بدلے گا۔ اعتزاز احسن صاحب کہتے ہیں ’’ہم بدلیں گے تب بدلے گا‘‘ لیکن ہم ہوس و لالچ کے سْنہری جال میں کچھ یوں لپٹے ہوئے ہیں کہ ہماری خاک جب آخری مکان تک پہنچنے لگتی ہے تو پچھتاوے شروع ہو جاتے ہیں۔ میں اپنی گھریلو ماماؤں کے تھکے جسموں اور جذبات کو دیکھتی ہوں تو ریاست پر غصہ آتا ہے۔ مزدور بچوں کو دیکھتی ہوں تو ریاست پر افسوس ہوتا ہے۔ اختتام مْنو بھائی کے شہرہ آفاق پنجابی شعر پر کیہ ہویا اے کیہ ہووے گا کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے ہو نئیں جاندا کرنا پیندا اے