سینیٹ میں جناب سینیٹر مشتاق احمد خان نے نفاذ اردو کا مقدمہ اٹھایا تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کا تعلق کراچی سے نہیں ہے۔ وہ اردو سپیکنگ بھی نہیں ہیں۔پھر وہ اردو کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب پاکستا ن کی جغرافیائی اکائیوں کی تہذیبی شناخت میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو گا کہ چونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس لیے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ معاملہ اس سے بڑھ کر ہے اور اس مطالبے کا حوالہ محض سیاسی نہیں ، تہذیبی اور ثقافتی بھی ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی کتاب ’ اردو زبان ، ہماری پہچان‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس میں اردو کے اسی تہذیبی حوالوں کا ذکر کیا گیا ہے جو میرے جیسے طالب علم کے لیے بالکل ایک نئی اور چونکا دینے والی بات ہے۔لاہور میں 1909 ایک اخبار نکلتا تھا جس کا نام ’ پیسہ‘ تھا۔اس اخبار کے 26 فروری 1909 کے اداریے کا عنوان تھا :پنجابی بخلاف اردو۔اس اداریے کے چند نکات یہ ہیں: 1۔ پنجابی کو اردو کے مقابل کھڑا کرنے کی سوچ احمقانہ ہے۔ 2۔ پنجاب کی مادری زبان ارد و ہے۔ 3۔لہجے کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ اصلا دونوں ایک ہی زبان کے روپ ہیں۔ اسی اخبار نے ایک اور اداریے ’ اردو پنجابی‘ میں لکھا : ’’ ایک پنجابی بچہ ہوش سنبھالتے ہی جو پہلے الفاظ منہ سے نکالتا ہے وہ خالص اردو کے ہوتے ہیں۔یہ ضرور ہے کہ تلفظ میں کہیں کہیں کسی قدر فرق ہوتا ہے۔ پنجابی بچہ جو پہلا لفظ’ اماں‘منہ سے نکالتاہے وہ اردو ہے۔ جب اسے دودھ پینے کی خواہش ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے ’ اماں، دود‘ ۔ صبح اٹھتا ہے اور اپنی پیاری ماں کو گہری نیند میں سویا ہوا پاتا ہے تو کہتا ہے : اماں اٹھو دن چڑھیا ( چڑھا)، اماں روٹی کھانی اے ( ہے)۔ اسی طرح ارد و پنجابی کی یکسانیت کی بیسیوں اور سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ پس سادہ پنجابی جس میں بچہ ہوش سنبھالتے ہی بولنے لگتا ہے وہ اردو کے سوا کچھ بھی نہیں۔پچیس مارچ 1906 کو اسی اخبار میں ایس ایم ڈین ناظر کا مضمون شائع ہوا اور انہوں نے لکھا :’’ اردو زبان در اصل منجھی ہوئی پنجابی زبان ہے مگر تھوڑی سی نفیس تبدیلی کے ساتھ استعمال میں لائی گئی ہے‘‘۔ یا د رہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی تحریک پاکستان شروع ہی نہیںہوئی تھی۔ یہ پرانے وقتوں کے متحدہ ہندوستان کی بات ہے۔ اس زمانے میں اخبارات یہ کہہ رہے تھے کہ پنجابی اور اردو ایک ہی چیز ہے۔یہ دعوی صرف پنجاب کا نہیں ہے۔ہند کو کے بعض محققین کا بھی یہی دعوی ہے کہ اردو ان کے لیے اجنبی نہیں بلکہ ہند کو ہی کی ارتقائی شکل کا نام اردو ہے۔خاطر غزنوی نے تو اس پر ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے جس کا عنوان ہے ’’ اردو زبان کا ماخذ ہند کو۔اس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ دعوی محض جذباتی نہیں بلکہ لسانیات کے سائنسی نظریات کی روشنی میں تہذیبی سیاق و سباق میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ہندکو زبان اردو کے قالب میں ڈھلی۔ ایسا ہی دعوی بلوچستان سے بھی ہوا ہے ڈاکٹر عبد الرزاق صابر نے اپنے تحقیقی مقالے میں بلوچستان کو اردو کا اصل مولد ثابت کیا ہے ۔مزید دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی دعوی سندھ کا بھی رہا ہے اور سید سلیمان ندوی اور پیر حسام الدین راشدی سندھ کو اردو کی جنم بھومی قرار دیتے ہیں۔ شیخ ایاز کا کہنا ہے کہ’’ اردو پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور پاکستانی کا‘‘۔ یہ سارے حقائق بیان کر کے پروفیسر فتح محمد لکھتے ہیں کہ سند ھ ، بلوچستان ، پنجاب ، اباسین ( کے پی اور شمالی علاقہ جات) اور کشمیر کے ماہرین لسانیات اردو کی پیدائش اور ابتدائی نشوونما اپنے اپنے گردو پیش میں دیکھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ سید علی گیلانی اردو کو وظیفہ حیات قرار دیتے تھے۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ اردو وہ زبان ہے جس نے اول صوفیائے کرام کے دل و دماغ میں پرورش پائی تھی اور صوفیاء کی وسیع المشربی اردو کے خمیر میں شامل ہے۔ نیا خیال ہو یا نیا لفظ اردو اسے اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے طویل اقتدار میں برصغیر میں جو اسلامی کلچر وجود میں آیا اردو اس کی نمائندہ تھی۔ یہ اقتدار ختم ہوا تو ہندو احیاء کے علمبرداروں نے انگریز کی سرپرستی میں اسلامی کلچر کو مٹانے کی کوشش شروع کی تو اردو بھی اس کا نشانہ بنی۔چنانچہ نہ صرف گاندھی نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا بلکہ آریا بھاشا کے نام سے ایک متبادل زبان متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تا کہ اس متبادل زبان کے بعد اردو اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ وہ زبان جو ہمارے اپنے خطے سے پھوٹی ، جس کا تعلق یہاں سے ہے ، جس کے لہجے مقامی ہیں ، جسے ہر ایک سمجھتا ہے ، المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس زبان کو اجنبی بنا ڈالا ہے اور ہم انگریزی میں گفتگو فرمانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔آج بھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ایک اہم مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے اور ’ انگریزیاں‘ ماری جا رہی ہیں۔ اپنی زبان میں ہم اپنے مقدمات بھی پیش نہیں کر پاتے۔ کیا احساس کمتری کی کوئی شکل اس سے بے ہودہ بھی ہو سکتی ہے۔ چین کے وزیر اعظم چو این لائی پاکستان آئے تو راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کی۔ یہ کانفرنس چینی زبان میں تھی۔ ان کا مترجم اس کا انگریزی ترجمہ کر رہا تھا۔اس نے ایک دو الفاظ کا ترجمہ درست نہ کیا تو انہوں نے رک کر مترجم کی غلطی کی چینی زبان میں اصلاح کر دی۔ مترجم نے معذرت کرتے ہوئے وہ بات درست انداز سے دوبارہ بیان کر دی۔پاکستان ٹائمز کے صحافی جے ایچ برکی نے بعد میں معزز مہمان سے پوچھا کہ آپ کو انگریزی پر ایسی شاندار گرفت ہے تو آپ نے چینی زبان میں کیوں بات کی۔ چو این لائی نے مسکرا کر کہا کیونکہ ہم گونگے نہیں اور ہماری اپنی زبان شاندار ہے۔ سینیٹ میں جب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے یہی نکتہ اٹھایا تو مجھے پروفیسر فتح محمد ملک صاحب اردو زبان ، ہماری پہچان یاد آ گئی۔یہ دونوں شخصیات ہمیں یاد دلاتی پھر رہی ہیں کہ ہم گونگے نہیں ہیں اور ہماری ایک اپنی زبان ہے جو یہاں کی تہذیب سے پھوٹی ہے۔ ہمارے آئین نے قرار دے رکھا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسے دفتری زبان بنانے کے لیے پندرہ سال کی مدت دی گئی تھی۔ یہ مدت ختم ہوئے بھی تین عشروں سے زیادہ کی مدت گزر چکی لیکن کسی کا آئین خطرے میں نہیں پڑا نہ ہی آئین نے کسی دروازے پر جا کر دستک دی کہ میں خطرے میں ہوں ، مجھے بچا لیا جائے۔یہاں آئین کی عملداری ، اس کی شرح اور اس کی حساسیت ہر ایک کا تعلق سیاسی اشرافیہ سے ہے۔حقیقی مسائل کی یہاں وہی حیثیت ہے جو عوام کی ہے۔