اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ نے بائبل کے دو ہزار سال پرانے نسخے کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ عبرانی زبان میں لکھا گیا یہ نسخہ اس کے یونانی ترجمے کے ساتھ ’’غار دہشت‘سے ملا ہے ،جو بحیرہ مردار کے مغربی ساحل پر واقع صحرا کے اندر موجود ہے۔ محکمہ کے مطابق یہ نسخہ ثابت حالت میں نہیں ملا۔ محکمے نے واضح نہیں کیا کہ اس کے ’’نیا عہد نامہ‘‘ میں کون کون سی انجیلیں شامل ہیں۔ یہ معلوم ہو جائے تو پتہ چل جائے گا کہ دو ہزار سال پہلے کون کون سی انجیلیں قابل اعتبار سمجھی جاتی تھیں۔60سال قبل ڈیڈسی سکرولز کے بعد یہ پہلی بڑی دریافت ہے جو اسی جگہ سے ہوئی۔ یہ سوال اہم ہے۔ اس لئے کہ موجودہ بائبل میں انجیلوں کا انتخاب 325ء میں کونسل آف نیکیاNiceaنے کیا تھا اور صرف چار انجیلوں کو نئے عہد نامے کا حصہ بنایا گیا۔ انجیلوں کی کل تعداد کا حتمی اندازہ کسی کو نہیں ہے ۔البتہ عام خیال ہے کہ 20یا 24انجیلیں تھیں اور ان میں سے صرف چار یعنی متیٰ‘ لوقا،مرقس اور یوحنا کی انجیلیں مروّج نسخے میں شامل ہیں اور یہ نسخہ 325ء والے نسخے سے یوں مختلف تھا کہ 1604ء میں انگلستان کے بادشاہ کنگ جیمز نے اپنی نگرانی میں اس کا انگریزی ترجمہ کرایا تھا اور ترتیب دی تھی جسے بعض نہیں مانتے۔ انہوں نے کئی صحیفے اس میں سے نکال دیے۔موجودہ بائبل کا قدیم ترین نسخہ کوڈیکس ویٹی کانس کہلاتا ہے جو وٹیکن لائبریری میں موجود ہے۔ جو انجیلیں تاریخ میں مذکورہیں، ان میں پیٹر کی انجیل‘اینوک کی انجیل ،تھامس کی انجیل‘ جوڈا کی انجیل ‘ مارک کی انجیل قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ میری مارکیون میری مگڈالین(مریم ماجدولین) بارتھل میو اور فلپ کی انجیلیں بھی گنی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ہمیشہ کے لئے معدوم ہو گئیں لیکن کچھ کا سراغ مل گیا اور اب وہ متعدد لائبریریوں میں موجود ہیں۔ اگر اس قدیم ترین بائبل میں انجیل موجود ہیں تو کچھ سوالات کا جواب مل سکتا ہے۔ مثلاً موجودہ چاروں انجیل میں حضرت مسیح ؑ کی حیات مبارکہ کے کئی اہم واقعات پر مختلف بیان ہیں۔ تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن جو سوال ہیں وہ یہ ہیں کہ کس بارے میں کس انجیل کا بیان درست ہے۔ مثلاً حضرت مسیحؑ کو کس نے اور کس لئے گرفتار کیا ،یا انہوں نے خود گرفتاری دی۔ وہ صلیب خود اٹھا کر چلے یا شمعون نے اٹھائی تھی۔ آپ کو صبح کے وقت مصلوب کیا گیا تھا یا شام ڈھلے۔ آپ بائبل کے بیان کے مطابق ‘ پھانسی کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے اور مرنے کے تین دن بعد پھر سے‘ مردوں میں جی اٹھے۔ اس موقع پر آپ کو دیکھنے والوں کی تعداد کیا تھی؟ پانچ سو یا گیارہ؟صلیب کے وقت آندھی طوفان سے سب لوگ بھاگ گئے تھے یا ایک بڑی تعداد میں لوگ آخری وقت تک موجود رہے۔ یہ اور ایسے کئی معاملات ہیں جن میں ہر انجیل کا بیان مختلف اور متضاد ہے۔ ٭٭٭٭٭ مذکورہ بالا گمشدہ اور بازیافتہ انجیلوں کے علاوہ ایک اور انجیل بھی موجود تھی جو بعد میں ناپید اور نابود ہو گئی یا کر دی گئی۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں آنحضورؐ کے ورود مسعود‘بعثت اور فتح مکّہ کے بارے میں حضرت مسیحؑ کی پیش گوئیاں زیادہ صراحت کے ساتھ مذکور تھیں۔ اس کا نام ’’برناباس‘‘ کی انجیل (the gospel of barnabas) تھا۔ یہاں برناباس کی جو انجیل مسلمان ممالک میں طبع ہو رہی اور علماء اس سے دلیل بھی لے رہے ہیں‘ وہ اصلی نہیں ہے۔ اہل یورپ کا کہنا ہے کہ یہ کسی مسلمان کی کاریگری ہے جس نے یہ کتاب تیار کر کے اپنے مذہب یعنی اسلام کو سچا ثابت کرنا چاہا۔ اہل مغرب کا یہ بیان درست نہیں۔ اس لئے کہ یہ انجیل جس نے بھی تیار کی سخت اناڑی پن سے کی۔ بظاہر لگتا ہے کہ برناباس کی اصل انجیل کو نابود کرنے کے بعد خود اہل مغرب نے جان بوجھ کر اناڑی پن سے پیراگراف اس میں شامل کئے تاکہ پڑھنے والے اسے مسلمانوں کا’’کارنامہ‘‘ سمجھے۔ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اس جعلسازی کی ضرورت نہیں جبکہ انجیل اور صحیفوں کے موجودہ اور متداول نسخوں میں بھی حضورؐ کی بعثت کی پیش گوئیاں موجود ہیں۔ ہاں‘یہ ضرور ہے کہ برناباس کی اصل انجیل میں صراحت اور بھی زیادہ تھی۔ ٭٭٭٭٭ یہاں برسبیل تذکرہ‘ ایک پرانا سوال یاد آ گیا جس کا ذکر بالعموم علمائے دین کرتے ہیں نہ علمائے تاریخ، قرآن پاک میں ہے کہ توریت اور انجیل دونوں کو اُس (خدا) نے نازل فرمایا(سورہ آل عمران)۔اب مسئلہ یہ ہے کہ توریت تو بائبل میں موجود ہے اگرچہ تاریخ میں پیش آنے والے کئی بڑے حادثات میں وہ ہر بار ضائع ہوتی رہی اور ہر بار یادداشت اور باقی ماندہ آثار کی مدد سے علمائے یہود اسے ازسرنو مرتب کرتے رہے، یوں اس میں بہت کچھ بدل گیا۔ لیکن انجیل کہاں ہے؟وہ انجیل جو خدا کا کلام تھی اور خدا نے نازل فرمائی! موجودہ بائبل میں موجود چار اور بائبل سے باہر ڈیڑھ درجن بھر انجیلیں دراصل حضرت مسیح علیہ السلام کے صحابہ (حواریوں) کی تحریر کردہ ہیں جو حضرت مسیح ؑکے حالات‘ زندگی کے اہم واقعات‘ان کے مواعظ اور ملفوظات پر مشتمل ہیں۔ حضرت مسیح کی زبانی جو کچھ ارشاد ہوا‘ اس میں الہامات بھی شامل ہیں۔ یہ انجیلیں سوانح عمریاں بھی ہیں‘ تاریخی واقعات کا مرقع بھی‘ پیغمبر کے ملفوظات وارشادات بھی۔ لیکن وہ انجیل جس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے‘ اس کی کھوج کسی نے کی ہے؟ شاید تازہ دریافت بائبل سے کوئی مدد مل سکے۔ ابھی تک کوئی تفصیل نہیں آئی ہے کہ علماء اور ماہرین نے اس کا مطالعہ کس حد تک کیا ہے۔ انجیل کے غائب ہونے اور دیگر واقعات کے بارے میں بہت سے اسرار کا ذکر ناول ڈاونچی کوڈ میں ملتا ہے جو ڈائون برائون نے 2003ء میں لکھا تھا۔ خدا جانے سچ کتنا ہے اور فسانہ کتنا!اس پر فلم بھی بنی۔