میری ایک نظم " آٹھ مرلے کا گھر" ہے جس کی آخری سطریں یوں ہیں " آٹھ مرلے کا گھر جس میں سونے کے دو کمرے ہیں جس میں کھانے کی چھوٹی سی اک میز ہے ساری دنیاؤں پر یک بیک چھا گیا کیسے اٹھی ہے اوپر زمیں کیسے نیچے ستاروں بھرا آسماں آ گیا "۔ جب یہی آٹھ مرلے کا گھر تعمیر ہو رہا تھا تو اس کے لیے کچھ رقم ہم نے اپنے ادارے سے قرض لی اور تعمیر کے کام میں دوستوں نے تعاون کیا۔ ہمارے پیارے دوست اور بھائیوں جیسے نجم سید تو سخت گرمیوں کے موسم میں ہمہ وقت موجود رہتے۔تب ان کی صحت کے بھی کچھ مسائل تھے اس کے باوجود سارا کام ان کی ہی نگرانی میں مکمل ہوا۔جہلم سے ہمارے کئی دوست بھی یہاں آئے اور انہوں نے بہت سارے کاموں میں ہاتھ بٹایا جن میں کرامت ساقی سر ِفہرست تھے۔بھیرہ سے ہمارے دوست ملک غلام قادر کھوکھر مرحوم بیوی بچوں سمیت ہی آ پہنچے تا کہ دن کو نگرانی اور رات کو چوکیداری کا مسئلہ نہ رہے۔ انہوں نے دو ماہ سے زائد عرصہ قیام کیا۔ملک صاحب محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کے ملازم تھے سو اس چھوٹے سے گھر کی تعمیر کے لیے موسم گرما کی چھٹیوں میں ان کا دستیاب رہنا زیادہ آسان تھا۔وہ بیوی بچوں کے ساتھ تپتی دوپہروں میں کام کرتے تھے۔نہ پیسے کا لالچ نہ پیسے کا دھیان یہ خالصتا دو طرفہ محبت کی ٹریفک تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہی سجتے تھے۔حساب کتاب ملک صاحب اور نجم بھائی کے سپرد تھا۔ہم نے بچپن میں والد صاحب کی کسی کتاب پر اے زر تو خدا نیست ولیکن بخدا ستار العیوبی و قاضی الحاجاتی پڑھا تھا۔ ( اے دولت تو خدا تو نہیں ہے لیکن خدا کی قسم تو عیبوں کو چھپانے والی اور حاجتوں کو پورا کرنے والی ضرور ہے)‘‘۔ وہی معاملہ سر پر آن پڑا تھا۔ کیسہ خالی اور ملک صاحب کا آوازہ رقم بھیجو رقم۔کام رکا پڑا ہے۔ بلکہ بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے ادھر ملک صاحب ہل من مزید کا نعرہ لگا رہے تھے،ادھر ہماری جیب شہر خالی قریہ خالی کا مڑدہ سنا رہی تھی۔دفتر سے رات گئے گھر لوٹا تو اپنی پریشانی ماں جی کو بتائی۔ بات کیا کی دل کا سارا غبار بہہ گیا۔رات کو پرسکون نیند لی۔مگر ماں جی کی آنکھوں سے نیند جیسے اڑ گئی۔ ابھی صبح ِکاذب تھی گلی میں دھندلکا سا تھا۔میں جاگا ہی تھا۔پہلے گاڑی کا ہارن ہوا پھر بیل بجی دروازہ کھولا تو آگے ماں جی۔کئی سالوں سے ان کے گھٹنوں کی تکلیف بڑھ چکی تھی۔وہ زیادہ چلنے پھرنے سے قاصر تھے اور ان کی موومنٹ محدود ہو چکی تھی۔واکر کے ذریعے چلتے تھے۔ مجھے جیسے کرنٹ لگا صبح کا وقت اور واکر کا سہارا۔سامنے ماں جی کھڑی تھی۔اس وقت صبح ِکاذب تھی اس کا مطلب تھا کہ وہ گاؤں سے سپیدہ ِسحر نمودار ہونے سے پہلے چلی تھیں سَو کلومیٹر کا سفر کر کے وہ ہمارے ہاں پہنچی تھیں۔اندر بٹھایا تو انہوں نے اشکبار آنکھوں سے میری طرف دیکھا کتنے پیسوں کی ضرورت ہے اور جتنے رقم ہمیں درکار تھی عنایت کر دی۔وقت گزر گیا۔ بینک کا قرض واپس کیا۔ کبھی دل میں خیال ہی نہیں آیا کہ ماں جی سے کوئی رقم قرض لی ہے۔یہ کیسا قرض تھا جس کی ادائیگی کا احساس ہی نہیں تھا۔ذہن یا دل پر کوئی بوجھ ہی نہیں تھا۔ تب ماں جی کی گاؤں میں بادشاہی کا زمانہ تھا۔ نوکروں کی ایک فوج، گاڑی ڈرائیور، کک دنیا کی کون سی نعمت تھی جو تب ان پر ارزاں نہ ہوئی تھی۔فرماں بردار اولاد، پوتے پوتیوں اور نواسوں کی فوج ظفر موج الگ۔قبلہ والد صاحب کی وفات کے بعد خاندان کی سربراہ۔نہ روپے پیسے کا لالچ نہ کمی۔رقم اپنی بہو کے حوالے کی اور کہا مَلک کو رقم آج ہی بھیج دینا کام کہیں رک نہ جائے۔ چند سال ہی بعد قسمت نے یاوری کی اور ہم ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں آ گئے۔ پہلے ادارے سے کہیں بہتر سہولیات اور پیکج ملا تو سب سے پہلے ادارے کے واجبات ادا کیے۔دوست احباب سے تو ہم کبھی ادھار کا جھنجٹ پالا ہی نہیں تھا ان کا ہم پر محبت کا ادھار تھا اور ہے اور بس۔ ہم سے کیا کسی سے بھی محبت کا قرض کبھی چکتا بھی نہیں۔ہمارا ایک چھوٹا سا گھر بن گیا۔اگلی نسل کو چھت مل گئی۔مگر ایک قرض ہمارے سر پر ضرور تھا ماں جی کی دی ہوئی رقم مگر وہاں نہ تقاضا تھا نہ یاددہانی۔ ہمارے دل میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ کوئی رقم ماں جی نے ہمیں دی بھی تھی۔ دو ہزار دس میں ان کا عمرے پہ جانے کا پروگرام بن گیا۔کاغذات اور پاسپورٹ تیار ہوئے تو ہمیں بھی قدرت نے موقع فراہم کر دیا۔جتنی رقم ماں جی نے ہمیں عنایت کی تھی چپکے سے ایک نیک بخت شخصیت کے ذریعے اس سے تین چار گنا زیادہ رقم ان کے حوالے کر دی۔نہ ماں جی کو پتہ چلا نہ کسی اور کو کانوں کان خبر ہوئی۔ ان کا بچپن انتہائی عسرت میں گزرا تھا۔ابا جی کے گھر میں آ کر بھی آمدن کا کوئی معقول ذریعہ نہ ہونے کے برابر تھا۔مگر ملنے جلنے والوں پر کبھی یہ ظاہر ہی نہیں ہوا کہ کہیں روپے پیسے کی کمی ہے۔لوگ یہی سمجھتے رہے کہ ان کے پاس کوئی خفیہ خزانہ ہے۔ خفیہ خزانہ ہی تو تھا جو ظاہر بھی نہیں ہوتا تھا اور ختم بھی نہیں ہوتا تھا۔ہمارے بڑے بھائی فرمایا کرتے ہیں۔جْڑیا وی نئیں تے تْھڑیا وی نئیں۔ (اگرچہ روپیہ پیسہ جوڑ نہیں سکے مگر کبھی کمی کا احساس بھی نہیں ہوا )۔ ماں جی کی رحلت 2014 میں ہوئی۔ٹھیک ایک ربع صدی قبل ان سے قرض لیا تھا۔ آج ماں جی کی دسویں برسی ہے۔ان کے بارے میں یہ سطور رقم کرتے بار بار خیال آتا ہے کہ ماں کا قرض کون ادا کر پایا ہے۔ کیا کوئی اولاد ماں کا قرض ادا کر پائی ہے۔ مجھ پر تو ماں جی کا دوہرا قرض واجب الادا ہے اور وہ پہاڑ سا قرض بمعہ سود آج بھی میری سامنے کھڑا ہے۔