ایک مسلمان کیا کر سکتا ہے؟جب اس کے شہروں پر آتش و آہن کی بارش جاری ہو،اس کا گھر تباہ کیا جا رہا ہو اوربچے اس آگ میں جل رہے ہوں؟ہمارے دانش فروش دور کی کوڑی لاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ ایسے میں صبر سے کام لینا چاہیے ورنہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔اس بات کو بھی مان لیا جائے توکیا یہ ممکن ہے کہ بدمعاش آپ کو چھوڑ دیں گے؟جن کے ذہن میں یہ فتور ہے کہ پچھلے سال ۷ اکتوبر کو حماس اسرائیل پر حملہ آور نہ ہوتی تو اسرائیل اتنا ردعمل نہ دکھاتا،وہ اب یہ کیوں نہیں بتاتے کہ حماس اتنے نقصان کے باوجود اپنا گھر چھوڑنے کو تیار کیوں نہیں۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بدمعاش مہمان کی حیثیت سے آئے اور آپ کے گھرکا مالک بن بیٹھے۔ انسانی غیرت کیا کہتی ہے؟اقوام متحدہ تو اپنی حیثیت کھو بیٹھا، او آئی سی بھی چند قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔غزہ کے شرق وغرب میں بیٹھے عرب ممالک اور ان کے حکمران اپنی ایمانی غیرت تو کھو چکے تھے،ان کی روایتی غیرت کا جنازہ بھی نکل گیا۔ کل کلاں کسی اور اسلامی ملک پر اسرائیل چڑھائی کرتا ہے تو کیا ہمارا رویہ اس سے مختلف ہوگا؟ مغرب کے دانشور کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں انتہا پسندی اسی دوغلی پالیسی کی وجہ سے پروان چڑھ رہی ہے۔امریکا اور یورپ کے لینے کے باٹ اور ،دینے کے باٹ اور ہیں۔ جب ان کے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو وہ اقوام متحدہ ،نیٹو اور کبھی یورپی یونین کا کندھا استعمال کرتے ہیں۔جب مسلمانوں پر مصیبت ٹوٹتی ہے تویہ ممالک جواز تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔چند ممالک کو ویٹو کی پاور دے کر باقی دنیا کا قتل عام کرنے کا گویا لائسنس دے دیا گیا ہے۔چھپن سے زائد اسلامی ممالک میں سے کسی ایک کو بھی اُف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔مصطفیٰ اکیول Cato Institute میں سینئر فیلو اور اسلام اور جدت پسندی پر لکھتے رہتے ہیں۔حال ہی میں ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے غزہ کے معاملے میں امریکا اور یورپ کے رویے کوزیربحث لایا ہے۔ان کے خیال میںپورے مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ وسیع تر مسلم دنیا میں، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف غیر معمولی سطح پر غم و غصہ پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے، اس غصے کے نتائج دیرپاہو ں گے۔ یہ نتائج2003 میں عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے اثرات سے کہیں زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں ،کیوں کہ اسرائیل نے غزہ میں جو قتل عام کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ براماناجارہا ہے جو مشرق وسطی میں امریکی فوجی مداخلت کے دوران ہوا تھا۔ اس خطے میں موجود ہر مبصر یہی رائے رکھتا ہے۔ ان میں مشرق وسطی ٰکی سیاست کے معروف ماہر Fawaz Gerges بھی شامل ہیں۔انہوں نے دسمبر 2023میں خبردار کر دیاتھاکہ’’میں نے کبھی بھی اس خطے کو اتنا دھماکا خیز، ابلتا ہوا نہیں دیکھا۔ نہ صرف اسرائیل کے خلاف بلکہ امریکہ کے خلاف بہت غیظ و غضب پایاجاتا ہے۔‘‘یہ غصہ کیوںہے؟ اس لیے کہ لاکھوں لوگ لائیو ٹیلی ویژن پر غزہ کے ہولناک مناظر ہر روز دیکھ رہے ہیں۔ پوری پوری آبادیاںبمباری کا شکار ہیں، شیرخواروں اور بچوں کی لاشیں ملبے سے نکل رہی ہیں۔ نسبتا پرسکون مغربی کنارے میں بھی معصوم شہریوں کو گولیوں سے بھونا جارہا ہے۔ مقامی صحت اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق اب تک تیس ہزارسے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ 90 فیصد غزہ کے باشندے بے گھر ہوچکے ہیں، وہ بھوک اور بیماری کا شکار ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان دیکھتے ہیں کہ مغربی رہنما، بالخصوص امریکی صدر جو بائیڈن اس سنگین مسئلے کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ بائیڈن کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ غزہ پر بمباری جاری رکھنے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو امریکی ڈالر اورہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیںبلاشبہ،سرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، جسے کوئی بھی منصف مزاج مبصر قبول کرے گا۔ کسی بھی ملک کو اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے جو اُس کے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیںلیکن دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کیسے جائز ہوگی جس میں ہزاروںمعصوم شہریوں کو مارا جاتا ہے؟ اموات کی حالیہ خوفناک شرح تاریخ میں کسی بھی دوسرے تنازعہ سے بدتر اور وسیع تر ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر خوراک، پانی، اور دوائیوں سے محرومی کودوطرفہ نقصان کے طور پرکیسے معاف کیا جائے گا؟جب کہ یہ سوال اپنی جگہ بہت بڑا ہے کہ کیا اسرئیل کوئی جائز مملکت ہے؟ کیا اس کا وجود پون صدی پہلے تھا؟ کیا اسرائیلی فلسطین میں مہمان بن کر نہیں آئے تھے ؟دنیا کے لیے، خاص طور پر مسلم ممالک میںیہ سوال جواب طلب ہے کہ اسرائیلیوں کی جانیں فلسطینیوں کی جانوں سے کہیں زیادہ اہمیت کیوںرکھتی ہیں؟ ماضی کی مثالیں شاید ہی کبھی دنیا کے سامنے اس طرح کی صریح صورت میں آئی ہوں کہ عرب آمروں کے لیے امریکی حمایت، یا ایران ، ترکی یا کسی اور جگہ سی آئی اے کی حمایت یافتہ بغاوتیںکروائی جاتی ہیں۔مغربی اصولوں پر بھروسے کا خاتمہ صرف ان لوگوں کو متاثر نہیں کر رہا ہے جو پہلے سے ہی امریکہ مخالف ہونے کی طرف مائل ہیں یا مغربی سربراہی پر مبنی ویٹو کے ناقد ہیںبلکہ ان میں لبرل مسلمان بھی ہیں جنہوں نے طویل عرصے سے مغرب کی سیاسی اقدار کی تعریف کی ہے اور اکثر ان کی طرف رجوع کیا ہے، لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دعوے داروں نے اپنے ہی اصولوں سے روگردانی کی ہے۔ مغربی پالیسی نے دنیا کو خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے، اسرائیل کی تاریخ کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے زیر قیادت تباہ کن جنگ اسرائیل کے لیے اچھی نہیں ہے۔ پچھلے کئی مہینوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہاسرائیل یرغمالیوں کی بڑی تعداد کوبچانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے جب کہ یہ کام سفارتی مذاکرات کے ذریعے کیاجا سکتا ہے۔ حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا کٹھن ہدف حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ ‘‘ تجزیہ نگار صحافی Gideon Levy نے بھی خبردار کیا ہے کہ’’جنگ کے آخرمیں اسرائیل کے وقار کو نقصان پہنچے گا اور حماس کو فاتح کا تاج پہنایا جائے گا‘‘