سکوں نہیں ہے میسر مجھے وطن میں کہیں دہک رہی ہے کوئی آگ سی بدن میں کہیں مجھے ہے حکم اذاں اور اس پہ ہے قدغن خدا کا ذکر نہ آئے مرے سخن میں کہیں ایک اور خیال جو درد کو لذت دیتا ہے وہ کیف جو کہ مہک میں نہیں ہے پھولوں کی۔رکھا گیا ہے فقط خار کی چبھن میں کہیں۔ یہ زندگی بھی تو تضادات کا مجموعہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جاں لیوا ہے گھٹن اب کے میں جی رہا ہوں مگر سعد اس گھٹن میں کہیں۔ اب میں آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف مگر مندرجہ بالا تمہید بھی بے جا نہیں سب سے پہلی بات کہ لہجہ موجود میں جو نظام تشکیل پایا وہ شاید انسانی دماغ کی معراج ہے مگر میں جب اسے الوہی روشنی میں دیکھتا ہوں تو بات دل کو لگتی ہے کہ دماغ بغاوت کر چکا ہے میں نے یہ کیا کیا شاید یہ مہم جوئی یا سچ مچ میری اختراع ہے کہ میں راتوں کو جگا دیا ہے یعنی رتجگوں کا عادی ہو گیا ہوں حالانکہ فطری بات تو اس سے مختلف ہے کہ رات کو ہمارے سونے کے لئے بنایا گیا کہ تسکین پائیں اور دن بھر کی مشقت کے بعد آرام کریں ایسے ہی شعر ذہن میں آ گیا: دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا چین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا اس کے ساتھ یہ تنویر سپرا کا شعر بھی ذھن میں آ گیا: اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے گویا ہم خلاف فطرت چلنے لگے کہ زمانے کی روش ٹھہری۔یہی سمجھایا گیا تھا کہ رات کو استراحت کرو دن کو دوڑ دھوپ کرو اور رزق تلاش کرو۔ انسانی دانش بھی یہ کہتی ہے مگر وہ عملی طور پر محاوروں تک رہ گئی کہ جلد سونا اور جلد جاگنا صحت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اسی بنیاد پر تو اسلام کو دین فطرت کہا گیا انسان کو بھی فطرت کے ہم آہنگ کر کے پیدا کیا کہ سب کچھ ان بلٹ ہے کہ جبلت اس کی وہی ہے مگر اس میں کج روی آ گئی کہ اس نے خود کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور عقل کل بن بیٹھا یگانہ نے بھی تو کہا تھا: خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا مولانا حمید حسین صاحب نے فکری محفل میں اس چیز کو اور اجاگر کیا کہ بات نظام پر آ گئی کہ ہم کرتے کیا ہیں کہ شخصیات پر بات کرتے ہیں رہنمائوں اور ان کے کار پردازوں کو کوستے ہیں حالانکہ یہ لوگ توکل پرزے ہیں اور ایک نظام کو چلا رہے ہیں جو ہمارا ہے ہی نہیں۔ نظام ہی چونکہ استحصالی کے بعد مادہ پرستی کا ہے اس لئے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اس میں نہ انصاف ہو سکتا ہے اور نہ پیسے کی تقسیم بلکہ جب اس نظام کو چلانے کے لئے اس کے لئے تعلیم بھی تو وہی ڈیزائن ہو گی۔ ظاہر ایک دینی اور صالح شخص کو اس نظام کو سمجھنا ہی نہیں تو اس کا زہد و تقویٰ یہاں بے کار ہو جائے گا۔ جہاں رشوت پورے خشوع و خضوع سے لی جا رہی ہو گی تو کوئی کیا کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں انسان نے اپنا مالک خود کو ڈکلیئر کر دیا اور مین گائیڈڈ سوسائٹی وجود میں آ گئی تو یہیں سے انسان کے اپنے مفادات آگے آ گئے یہ اجتماعی طور پر ایک استحصالی نظام بن گیا۔ مولانا روم نے کہا تھا؟ چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد یعنی جب انسان کا مفاد سامنے آ جاتا ہے یعنی وہ غرض کا بندہ بنتا ہے تو اس کی ساری صلاحیتیں چھپ جاتی ہیں وہ دیکھ نہیں سکتا اس کے دل کے پردے اس کی آنکھوں پر پڑ جاتے ہیں وہ وہی کچھ کرے گا جو اس کا دل کہے گا پھر دل تو گھاٹے کا سودا نہیں کرتا نفع نقصان کیا ہے اس کا فیصلہ دل کرے گا۔ یہ ہم عملی طور پر دیکھتے ہیں کہ فیصلہ دل اور طاقت کے ہاتھ میں ہو تو امریکہ کی صورت حال بنتی ہے کہ دہشت گرد کون ہے یہ امریکہ بتائے گا جبکہ وہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ بات کسی اور طرف چلی جائے گی کہ بات یہ ہو رہی تھی کہ انسان نے اپنے سارے کام اپنے ہاتھ میں لے لئے وہی جس کا انجام میرا جسم میری مرضی پر جا کر ہوا۔ ساری اخلاقیات و اقدار دھری کی دھری رہ گئیں۔ کہ سود کھانے اور کھلانے والے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں ایک لمحے کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر ذھن سے کام لے کر سوچیں کہ کیا اس سودی نظام میں آدمی کا کس قدر استحصال ہوتا ہے خدا اس کی یکسر نفی کرتا ہے جبکہ آج کا انسان کہتا ہے کہ اس لعنت کے بغیر نظام ہی نہیں چل سکتا۔ گویا انسان انسان ہی کے ہاتھوں یرغمال بن گیا ۔ اسے بہکنے کی سزا بھی ملی اس نے معیشت کو اس روش پر چلایا کہ جس میں پڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے سب سے اہم اور مرکزی بات کہ سارا فوکس انسان کا مادہ پر ہو گیا یعنی جسم پر کہ اس کی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا جبکہ انسان تو جسم اور روح کا مجموعہ ہے اور اس میں ایک خاص طرح کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی کہ انسان کو روح کے حوالے سے سوچنے سے بھی باز رکھا گیا کہ یہ دقیا نوسی باتیں ہیں جب انسان نے روح کو نظرانداز کیا تو روح سے وابستہ سارے جذبات و خیالات بری طرح متاثر ہوئے بلکہ ختم ہی ہو گئے۔ محبت رواداری ایثار اور ایسے ہی سارے جذبے کہاں گئے بھائی بھائی کو بھول گیا باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو ہم نے تو یہیں حشر کی سی صورت حال پیدا کر لی افراتفری اور بے گانگی۔