گیند اب سپریم کورٹ کے کورٹ میں آگئی ہے۔ پیش کئے جانے والے صدارتی ریفرنس کے سوالات وہ ہیں جن پر اس سے قبل ملک کے نامور قانون دان اور سابق معزز جج صاحبان اپنے تئیں توضیح اور تشریح کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا۔ یہ تمام منحرف ارکان بھی بڑی دلچسپی اور سسپنس سے اس پوری کارروائی کو دیکھ رہے ہیں‘ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ تاحیات نااہلی‘ ووٹ ڈالنے کا حق‘ ووٹ کاؤنٹ ہونے کا معاملہ‘ ڈی سیٹ ہونے کا طریقہ۔ اب یہ اختیار سپریم کورٹ کا ہے کہ وہ اس پوری آئینی طریقہ کار کی کس انداز سے تشریح کرسکتی ہے۔ کیا ایسے آئینی معاملات پر عدالت عظمیٰ دو قدم آگے بڑھ کر کوئی ایسی تشریح کرسکتی ہے جو سب کو حیران کردے۔ تو یقیناً جواب نہ میں ہوگا‘ کیونکہ ابتدائی کارروائی سے اندازہ ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ بہت محتاط ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر معزز چیف جسٹس نے اس خواہش کا برملا اظہار کیا ہے کہ جمہوریت کا سفر بہرطور چلتے رہنا چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ عدالتی تاریخ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ انتہائی نرم اور انتہائی سخت تشریح کی گئی۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ تشریح کسی ایک فریق کیلئے موزوں اور دوسرے کے مفادات کو اس سے زک پہنچتی ہو‘ لیکن بہرطور سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ درجنوں پہلو ہیں بے شمار مفروضے ہیں‘ لاتعداد اندازے ہیں‘ مثلاً سپریم کورٹ یہ بھی تو کہہ سکتی ہے کہ آپ نے اپنے ارادے اور عزائم بتادیئے ہیں۔ آپ ان کے کیمپ میں جا بیٹھے ہیں اب کیا رہ گیا۔ اس لئے یقینا حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے تو پھر کیوں نہ آپ پر ووٹ دینے کی پابندی لگادی جائے یا پھر وہ اس نقطہ نظر سے اتفاق کرے جس پر 80 فیصد ممتاز قانون دانوں کا اتفاق ہے کہ ڈی سیٹ کرنے کا پروسس اسی وقت شروع ہوگا جب جرم ہوگا۔ اس لئے ہر رکن کو یہ حق ہے کہ ووٹ دے۔ خواہ کسی کو بھی دے اور اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار ہرگز نہیں کہ وہ اپنی رولنگ کے ذریعے اس ووٹ کو گنتی نہ کرے۔ عائشہ گولالئی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ حکومت نے اپنے ریفرنس میں خود کہا ہے کہ رکن اسمبلی کوئی ربر اسٹمپ نہیں ہے بلکہ اس کا ضمیر ہے اور وہ اپنے ضمیر پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے‘ لیکن پارٹی ڈسپلن کی کچھ قیود ہیں۔ لیکن ان قیود کی ریڈ لائن ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلہ کن موڑ پر اس ریڈ لائن کا تعین کرے گا۔ ہم دوسری طرف آتے ہیں۔ عمران خان کو آج جس چیلنج کا سامنا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر انہوں نے جو کچھ کیا پہلے تو وہ عوامی جلسوں میں جاکر اپنا مقدمہ پیش کرنے کے بجائے اپوزیشن کے اکابرین کے خلاف بڑی تیز و تند زبان استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے رواداری‘ باہم گفت و شنید‘ ہم آہنگی کی کوششیں اور مخالفین کی آواز سننے کے تکلف میں پڑے بغیر اپنے منحرف ارکان اسمبلی کو لفظی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ جس سے افہام و تفہیم کا راستہ ہی بند ہو گیا۔وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغرب ان کے خلاف اس مہم کے پیچھے ہیں۔ وہ تاثر دے رہے ہیں کہ امریکہ ان کے جرأتمندانہ موقف سے خوفزدہ ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یورپ اور یورپی یونین انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر وہ اس دلیری سے سینہ تان کر حق اور سچ کی بات کہہ رہے ہیں وہ مغرب کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ کسی ملک کا سربراہ کھڑے ہوکر Not Absolutely کہہ دے۔ میرے خیال میں خدانخواستہ یہ بات نہیں کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ وہ اپنا نقطہ نظر پیش کررہے ہیں‘ لیکن اگر وہ گفتگو کرتے ہوئے تھوڑی احتیاط اور بردباری سے کام لیں۔ آپ دیکھیں۔ وہ اس وقت حزب مخالف کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں اس سے کتنی زیادہ پولیٹیکل پولرائزیشن ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس سے سیاسی طور پر لوگ تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں۔ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں جلسے کرکے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ وہ اداروں کو بھی یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ عوامی رائے مکمل طور پر ان کے خلاف نہیں ہوئی ہے۔ وہ اپنے منحرف اراکین کو بھی یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں ان کے ٹکٹ کی ویلیو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ تاثر وہ دینے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ وہ بڑی سرعت اور ہوشیاری سے پارلیمنٹ کی لڑائی کو عوامی جلسوں تک لے آئے ہیں۔ لیکن اس جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں وہ یہ فراموش کرچکے ہیں کہ اصل مقابلہ اسمبلی میں ہوگا جس کے پاس 172 ارکان کے ووٹ ہونگے وہ سرخرو ہوگا۔ وزیراعظم سمجھ رہے ہیں کہ وہ اکثریت کھوچکے ہیں۔اسمبلی کی جنگ وہ ہار چکے ہیں۔ اگر ان کے پاس 172 ارکان کی حمایت ہوتی تو وہ کسی بھی تقریب میں جمع کرکے ان کی گنتی کروادیتے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔ لیکن اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہے اور ان کے لب و لہجہ نے ان کے ارکان کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ انہیں اور زیادہ متنفر کردیا‘ بلکہ ان کے وہ ارکان جو ابھی تک ان سے ناراضگی اور گلے شکوے کے باوجود ان کے ساتھ ہیں وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر کسی بھی وقت کسی اور سمت اڑ سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس وقت اور زیادہ ہوگیا جب منگل کی دوپہر پی ڈی ایم کے سربراہ نے بہادر آباد کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت سے تفصیلی ملاقات کے بعد خوشگوار موڈ میں یہ اعلان کیا کہ ہم انتہائی اطمینان قلب کے ساتھ جارہے ہیں۔ (جاری ہے)