پھر سوشل میڈیا پر فوجی قیادت کیخلاف پی ٹی آئی کی ٹیم کے رویئے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم اس رویئے کی سخت مذمت کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اشارہ دیا کہ معاملات آگے بڑھ گئے ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے چند رہنمائوں کو اپوزیشن کے ساتھ ملنے پر تحفظات موجود ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پر بھروسہ کرنا درست نہیں اور نواز شریف کے دور میں ایم کیو ایم کے آپریشن کی کچھ تلخ یادیں ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ ایم کیو ایم اس وقت حکومت کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ اس کے پاس 7 اراکین ہیں اور ان کے باضابطہ حکومت کے خلاف اعلان سے حکومت خاصی کمزور پڑجائے گی‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور باپ یہ وہ پارٹیاں ہیں جو ہیئت مقتدرہ کے موڈ اور رجحان کا تھرما میٹر سمجھی جاتی ہیں۔ بعض ذرائع سمجھتے ہیں کہ حکومت کی یہ تینوں اہم اتحادی ووٹنگ سے دو یا تین دن پہلے حکومت کا ہاتھ جھٹک کر اپوزیشن کی صفوں میں کھڑا ہونے کی تیاری کررہی ہیں۔ اگر یہ 17 اراکین اپوزیشن سے مل گئے تو اپوزیشن کی قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 162 سے بڑھ کر 179 ہوجائے گی اور حکومت کے اراکین کی تعداد 179 سے کم ہوکر 162 رہ جائے گی۔ اس طرح عمران خان کی حکومت کو دھچکا لگے گا لیکن لگتا یہ ہے کہ حزب اختلاف محض اتحادیوں پر ہی بھروسہ نہیں کررہی بلکہ اس گنتی کو 200 اراکین تک لے جانے کیلئے پرامید ہیں۔ کیونکہ حکومت کے 24 منحرفین ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ چلنے اور اس تحریک میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ ان سب ارکان نے جو اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوکر عمران خان کے ٹائی ٹینک کو ڈبونے کی تیاری کررہے ہیں اس کے عوض شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے انہیں کئی پرکشش ترغیبات ضرور دی ہوں گی اور اس بات کو نواز شریف کے اس بیان سے اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ جو منحرف ارکان اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دینگے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) انہیں اپنا ٹکٹ دے گی۔ اپوزیشن کی حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت کے بعد پہلے پنجاب‘ پھر بلوچستان اور پھر خیبرپختونخواہ کی حکومتیں الٹائی جائیں گی۔ ۔ اس امکان کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ عمران خان تحریک کا سامنا کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ اس لئے عمران خان نے آخری کوشش کے طور پر ایک بار پھر اتحادیوں کو منانے کیلئے وزرا کو نئی ہدایات جاری کردی ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اپوزیشن عمران کو اقتدار سے ہٹادیتی ہے تو پھر اتحادی پارٹیاں ہمیشہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پر اپنا دباؤ برقرار رکھیں گی اور اس طرح آخر کار شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے پاس وہ کونسا جادوئی چراغ ہوگا جس کی مدد سے وہ ملک کو اس معاشی منجدھار سے نکالیں‘ جس میں وہ اس وقت پھنسا نظر آرہا ہے۔ کیا بعد میں اپوزیشن یہ نہیں سوچے گی کہ اگر وہ عمران کو مدت پوری کرنے دیتی تو ان سے 5 سال کا حساب لیا جاتا اور اب جبکہ ان سے پونے چار سال کا حساب مانگا جائے گا تو وہ ضرور کہیں گے کہ ان کے کتنے منصوبے تھے جو پائپ لائن میں تھے اور اپوزیشن کی مداخلت نے انہیں چلنے نہیں دیا اور اپوزیشن سے یہ بھی سوال پوچھا جاسکے گا کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ یکدم سب ٹھپ ہوگیا۔ اچانک ہی کیا ہوا کہ منتشر اپوزیشن یکجا ہونے لگی۔ اتحادی ناراض سے ہوگئے اور حکومت کے اندر دراڑیں گہری ہونی شروع ہوگئیں اور لوگوں کا ضمیر جاگ گیا۔ اور اپوزیشن کو بھی نظر آنے لگا کہ ہیئت مقتدرہ بھی نیوٹرل ہے۔ یہ نیوٹرل کا لفظ بھی اب ناجانے کتنے اسلوب اور انداز سے بیان کیا جارہا ہے۔ کئی بڑے ہی نکیلے اور چبھتے ہوئے سوالات ہیں جو دونوں فریقوں سے کئے جاسکتے ہیں‘ لیکن لگتا ہے کہ ان سوالات کا جواب نہ حزب اختلاف دے گی اور نہ ہی حزب اقتدار‘ کیونکہ ایک فریق اقتدار میں آنے کی کوشش کررہا ہے اور ایک فریق اپنا اقتدار بچانے کی فکر میں ہے۔ اس کھیل میں ایک اور دلچسپ موڑ یہ بھی آگیا ہے کہ مصالحتی پالیسی اختیار کرنے اور مزاحمتی پالیسی اپنانے والے حمزہ شہباز اور مریم نواز بھی اب شہباز شریف کے پیچھے پورے ادب سے کھڑے ہیں اور اس جلوس کی قیادت کرنے کیلئے تیار ہیں جس لانگ مارچ کا اعلان پی ڈی ایم نے دو ماہ پہلے 23 مارچ کو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں کزنز اپنے ہاتھ ملاکر ایک ہی مقصد کیلئے اس مارچ کی قیادت کریں گے تاکہ حکومت کے اس جلسے اور اجتماعات کا جواب دیا جاسکے جو عمران خان بلاناغہ کررہے ہیں اور 27 مارچ کو انہوں نے ایک گرینڈ جلسے کا اہتمام کررکھا ہے۔ یہ دونوں جانب سے شو آف پاور ضرور ہوگا‘ لیکن جو بھی ہوگا اسمبلی میں ہوگا۔