خان صاحب صاحبِ تصرف ہیں‘ اس میںکوئی شک ہے نہ شبہ۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ صاحبِ کشف بھی ہیں ۔ کشف بھی ایسا کہ دائرہ شہود میں شامل ہے۔ ابھی چند ہی دن پہلے فرمایا‘ اپوزیشن والے سارے کے سارے چہرے ہی سے غدار لگتے ہیں۔ بجا ارشاد۔ غدار ہی نہیں‘ کرپٹ اور ڈاکو بھی ہیں۔ کہئے‘ چہرے پر کہاں لکھا ہوتا ہے کہ صاحب چہرہ غدار ہے یا محب وطن۔ جو بھی تحریر ہوتی ہے باطن میں رہتی ہے اور باطن کو روشن ضمیر اصحاب کشف ہی پڑھ سکتے ہیں بلکہ پڑھ لیتے ہیں جیساکہ خاں صاحب نے پڑھ لیا۔ حکمران اتحاد کے سارے چہرے انہوں نے پہلے ہی پڑھ لیے ہوں گے اور کشف سے جان گئے ہوں گے کہ سب کے سب محب وطن‘ ایماندار‘ سچے‘ راست باز اور نیک پاک ہیں۔ اپوزیشن عمران کو غلط ثابت کرنے کے لیے اتنا تو کر سکتی ہے کہ ایک آدھا‘ صرف ایک آدھا محب وطن بھی اپنے اندر بھرتی کرلے اور دو ایک ایماندار بھی شامل کرلے لیکن کیا یہ وہ سب کے سب پی ٹی آئی کے پیاروں میں شامل ہو گئے۔ ٭٭٭٭ حال ہی میں ایک ضمنی کشف یہ بھی سامنے آیاکہ وہ سولہ ارکان جنہوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیئے‘وہ سب کے سب کرپٹ‘ ضمیر فروش ہیں۔ یہ کشف آپ نے بیان کی صورت میں دو مرتبہ دہرایا اور میڈیا نے اسے قبول زریں کے طور پر چھاپا اور نشر کیا۔ اس سے لگتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک جو سلسلہ ہائے کشف جاری تھا‘ اس میں کچھ کمی رہ گئی ورنہ پہلے ہی یہ سند انہیں عطا کر ڈالتے۔ یعنی یہ کشف کچھ دیر سے ہوا۔ معلوم ہوا کہ ضروری نہیں کہ ہر کشف بروقت ہو‘ کچھ بعداز وقت بھی ہوا کرتے ہیں یعنی تب جب گاڑی چھوٹ چکی ہوتی ہے۔ یہ کشف بھی تب ہوا جب حفیظ شیخ کی گاڑی چھوٹ گئی تھی۔ ٭٭٭٭ اب ان سولہ افراد کا کیا کیا جائے گا؟ ان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا‘ بظاہر انہیں مزید زیر استعمال لانے کی ضرورت نہیں‘ پھر ان کے خلاف کارروائی میں کیوں تاخیر ہورہی ہے۔ اعتماد کا مرحلہ تو سر کرلیا‘ شاید عدم اعتماد کے مرحلے کا ڈر ہے۔ بالکل یہی بات لگتی ہے اس لیے فی الحال ان کے خلاف کارروائی میں جلد بازی مناسب نہیں۔ البتہ ایک ڈر ہے۔ الیکشن کمیشن میں یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے خلاف بے ایمانی‘ رشوت ستانی کا ایک کیس راست بازوں نے داخل کیا ہوا ہے۔ شبہ ہے کہ ان سولہ بردہ خریدی میں صاحب ملوث ہیں۔ ڈر پھر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان سولہ کا سراغ لگا کر کارروائی کر ڈالی تو… ویسے امید نہیں ہے کہ ایسا کچھ ہو۔عدم اعتماد کا مرحلہ گزرے‘ پھر دیکھا جائے گا۔ ٭٭٭٭ خاں صاحب کے صاحب تصرف ہونے پر لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں‘ سب اصحاب طریقت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر بھی گاہے گاہے بازخواں کے طور پر اور مشنے نمونہ از خروارے کے اصول پر ایک دو تصرفات کا ذکر کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ سرفہرست تصرف فارن فنڈنگ کیس ہے۔ انگریز کے دور میں غدر برپا ہوا، تو ایک صاحب تصرف بزرگ کی گرفتاری کا حکم بھی آگیا۔ موصوف ایک اصطبل میں جا گھسے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ بالکل سامنے بیٹھے تھے لیکن انگریزی پولیس نے اصطبل کا چپہ چپہ چھاں مارا‘ وہ نظر نہ آئے۔ فارن فنڈنگ کیس کا چپہ چپہ چھ سال سے چھان مارا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن ابھی تک کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہے۔ تصرف کا اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ اور پھر مزید یہی نہیں‘ جو بھی ان کے سلسلہ مبارکہ میں آتاہے‘ ہفت صد بلائوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ فیصل واوڈا کو دیکھ لیجئے۔ دو برس کی محنت شاقہ کے بعد عدالت نے سراغ لگا لیا کہ موصوف نے جھوٹ بولا اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا‘ مطلب کہہ دیا کہ الیکشن کمیشن دیکھ لے۔ اور الیکشن کمیشن نے کہہ دیا کہ دیکھ لیں گے۔ یعنی کبھی نہ کبھی دیکھ ہی لیں گے۔ ٭٭٭٭ یادش بخیر‘ ادھر فیصل واوڈا کا ذکر کیا‘ ادھر ٹی وی پر ان کا ٹکر چلا۔ لکھا تھا کہ موصوف نے فرمایا‘ ان کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ان سے مراد کن سے تھی؟ ٹکر میں نہیں لکھا لیکن ظاہر ہے کہ مراد اپوزیشن والے ہی ہیں۔ خوشی ہوئی کہ واوڈا صاحب نے بھی نہیں چھوڑوں گا‘ کا عزم کرلیا ہے۔ یعنی وہ کبھی کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ ٭٭٭٭ ویسے تھوڑا بہت کشف کبھی کبھار ہمیں بھی ہو جاتا ہے۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے لیے کارروائی شروع ہوئی تو جونہی ایوان میں سب سے اہم کرسی پر نظر پڑی ، ہمیں کشف ہوا کہ بندہ محب وطن ہے‘ آج تو حب الوطنی کر کے ہی رہے گی۔یہ کشف پورا ہوا‘ ساڑھے پانچ بجے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو 7ووٹ مسترد ہو گئے اور 47 ووٹوں والے سنجرانی صاحب نے عظیم الشان باب رقم کر دیا۔ افسوس تب ہوا جب سنجرانی نے فرمایا کہ میری جیت کا کریڈٹ خاں صاحب کو جاتا ہے۔ حالانکہ یہ کریڈٹ سارے کا سارا کسی اور کو ہی جاتا ہے۔اڑھائی سالہ جائزے سے دریافت ہوا کہ ما قبل اور ما بعد تبدیلی کا عاد اعظم مشترک خانہ ہے۔ جی ہاں‘ خانہ ہے۔