باب ُالعلم کا ارشاد ہے: یہ دِل بھی اس طرح تھک جاتے ہیں جیسے بدن۔لہٰذا جب ایسا ہو تو ان کیلئے لطیف حکمت والے جملے تلاش کرو۔درویشوں اور ولیوں کا وجود دلوں کو قرار دینے میں معاونت کرتا ہے۔نبوت ختم ہو چکی آقا دو جہاں پر مگر ولایت اور ولیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور یہ رہے گا۔ ایک خاص وقتِ معین تک۔واصف صاحب سے تعارف اُن کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد ہوا مگر ایسا ہوا کہ لفظوں کے حصار میں لانا ممکن نہیں۔مگر ان کی حکمت بھری باتوں کی بات کی جا سکتی ہے۔آپ نابھہ روڈ کے قریب اپنے پرائیویٹ کالج میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ایک طالبعلم نے پوچھا شارٹ اسٹوری(افسانہ )کی کیا تعریف لکھوں؟آپ نے کہا ایسی اسٹوری جو شارٹ ہو۔۔۔اُسے شارٹ اسٹوری کہتے ہیں۔آپ ایک مختصر جملے میں حکمت کو کوزے میں بند کر دیتے تھے۔آپ کی چھوٹی سی بات،مختصر سا جملہ اکثر بہت بڑا عقدہ کھول دیتا ہے۔کئی دفعہ آپ کسی کے ساتھ عرصہ دراز رہتے ہیں مگر فیض نہیں ملتا مگر بابا جی کہا کرتے تھے کہ میں جس سے ملا اُس کی زندگی کا حصہ بن گیا۔آپ کہتے۔۔۔مسائل اور علوم سے کتابیں بھری پڑی ہیں،جن سوالوں کے جواب اُن کتابوں میں نہیں ہیں۔۔۔وہ سوال پوچھو۔اور یہ بھی کہ میں اُس سوال کی دعوت دے رہا ہوں جس کا جواب کہیں اور نہ ملے۔آپ کہا کرتے"آپ مسلمان ہیں،اسلام پر چلنا چاہتے ہیں۔زمانہ بدل چکا ہے۔دین پر چلتے چلتے خیال اور عمل میں کوئی رکاوٹ یا الجھن آ جائے تو پوچھ لیں"۔پھر کہنے لگے۔۔۔تم میں سے جو شخص ایک سوال کرتا ہے وہ دراصل ہزاروں انسانوں کے دلوں میں موجود سوال ہوتا ہے۔وہ علم جو ابھی کتابو ںمیں نہیں آیا۔۔۔اس کی آج کے انسانوں کو اشد ضرورت ہے۔اس علم کو باہر آنا چاہیے تاکہ فقراء نے اللہ کا جو علم اپنے سینوں میں محفوظ کر کے ہم تک پہنچایا ہے وہ محفوظ طریقے سے ہماری نسلوں تک پہنچ جائے۔ پوچھنے والے کا سوال ختم ہوتا۔۔آپ کا بیان شروع ہو جاتا۔ایک دریا چل پڑتا۔ایک ایسا دریا جس کی روانی سننے والوں کو ششدر کر دیتی۔لفظ اس تواتر سے اور ترتیب سے وارد ہوتے کہ محسوس ہوتا کہ یہ سلسلہ کسی ان دیکھے مقام سے تواتر پا رہا ہے۔پاکستان ٹیلی ویژن پر بابا جی اشفاق صاحب ایک پروگرام زاویہ کے نام سے کرتے تھے۔اس پروگرام کی ریکارڈنگ سے پہلے سٹوڈیو میں میری اور ڈاکٹر اجمل نیازی کی گفتگو ہو رہی تھی ،بابا جی واصف علی واصف صاحب پر۔نیازی صاحب کا اصرار تھا کہ بابا جی بولتے بڑا خوبصورت تھے۔مگر میرا یہ ماننا تھا کہ بابا جی کی تحریر پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے کر ہمیشہ کیلئے اپنا اسیر بنا لیتی ہے۔بات ہو رہی تھی کہ میں نے سوالیہ نظروں سے اشفاق صاحب کی طرف دیکھا۔اشفاق صاحب نے ہلکے سے توقف کے بعد کہا"واصف صاحب جتنا اچھا بولتے تھے،اس سے اچھا لکھتے تھے۔اور جتنا اچھا لکھتے تھے اس سے زیادہ اچھا بولتے تھے"۔پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد چائے کی پیالی پر گفتگو ہو رہی تھی کہ میں نے اشفاق صاحب سے پوچھا "درویش اور دانشور میں کیا فرق ہوتا ہے کہ آپ درویش بھی ہیں اور دانشور بھی؟"اشفاق صاحب کا ایک انداز تھا کہ وہ سوال و جواب کے درمیانی وقفے میں جب سوچتے تویوں لگتا جیسے وہ کچھ چبا رہے ہوں۔بہر حال انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور واصف صاحب کا ایک جملہ بھی Quoteکیا۔"جب آپ دانشور کو ملتے ہیں تو وہ آپ کے اصل قد کو چھوٹا کر کے آپ کو بونا بنا دیتا ہے۔مگر جب آپ کسی درویش سے ملتے ہیں تو وہ آپ کے اصل قد میں بھی اضافہ کر دیتا ہے"۔ان کا مطلب تھا کہ درویش آپ کو مایوسی سے دور لے جاتا ہے اور آپ کی ذات میں اُمید کی رمق اور کرن کو جگا دیتا ہے۔ واصف صاحب کی گفتگو میں ادراک،احساس اور فہم کی ایک دنیا آباد ہوتی تھی۔اس پر مزید یہ کہ اُن کی بات میں تاثیر بڑی دیر پا اور دور رَس ہوتی۔قلوب میں وجد اور ردھم یوں آتا کہ خود متاثر بھی حیران رہ جاتا۔جب بھی سوال کیا جاتا پہلے پوچھنے والے کو بتاتے اور سمجھاتے کہ تم نے جو سوال پوچھا ہے اُس کے پسِ منظر میں کونسا خیال ہے۔کبھی شعر سے وضاحت کر دیتے،کبھی کسی چھوٹی سی کہانی سے اور کبھی کسی صوفی۔۔درویش کے واقع سے۔بابا فرید سے خواجہ غلام فرید تک۔۔بابا بلھے شاہ سے سلطان باہو تک اور وارث شاہ سے میاں محمد بخش تک۔جب امیر خسرو کا ذکر آتا تو کیفیت بدل جاتی۔سب ذکروں میں سب سے زیادہ ذکر لاہور کے داتا حضور کا ہوتا۔آپ کہا کرتے۔۔لاہور میں کئی بادشاہ آئے اور گئے۔۔داتا حضور کی حکومت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی۔آپ کہنے لگے''لوگ بادشاہ کے مزار پر نہیں جاتے،اپنے باپ دادا کی قبر پر نہیں جاتے مگر داتا کے دربار کی رونق دیکھو،ہمیشہ سے بڑھتی جا رہی ہے"۔آپ کا پیغام فرد کا باطن بدل دیتا تھا۔باطن بدلے تو ظاہر خود بدل جاتا ہے۔فرد کا بھی اور سماج کا بھی۔باطن بدلنے کی ڈیوٹی اللہ پاک اپنےChosenبندوں کو عطا کرتا ہے۔باطنی مشکلیں بڑی پیچیدہ اور تہہ دار ہوتی ہیں۔اگر وہ سلجھ جائیں تو ساری زندگی سلجھ جاتی ہے۔انسان کی سمت ہی بدل جاتی ہے۔ولی،درویش اور اللہ کے برگزیدہ بندے یہی کام کرتے ہیں مگر اپنی اپنی ڈیوٹی کے مطابق۔ بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کو دعا کی ضرورت ہے تو کسی انسان کی کوئی مشکل حل کر دو۔لوگوں کو دیکھا کرو کہ کوئی کسی الجھن یا مشکل میں تو نہیں۔مسکین کی مدد کرو۔مسکین کون ہے؟جو محنت تو پوری کر رہا ہے مگر اُس کا گزارہ نہیں ہو رہا۔آپ اُن کی مدد کرو،اللہ آپ کے ساتھ بڑی مہربانی کرے گا۔لوگوں کی خدمت کرو اور اپنی خواہشات اللہ کے حوالے کر دو۔اللہ پر اتنا یقین کر لو کہ درمیان سے گِلہ نکل جائے۔اگر اللہ کو مان لو گے تو ذکر کی توفیق مل جائے گی اور ذکر میں ہی ایک ایسا مقام آئے گا کہ قبولیت کا موقع آ جائے گا۔ واصف مجھے ازل سے مِلی منزلِ ابد ہر دور پہ محیط ہوں، جِس زاویے میں ھوں