جنوبی پنجاب کا دور افتادہ ضلع ڈیرہ غازیخان اپنی تہذیب و تمدن و تاریخی لحاظ سے پورے ملک میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے چاروں صوبوں کے سنگم میں واقع ڈیرہ غازیخان کے مشرق میں دریا سندھ بہتا ہے تو اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا ایک طویل سلسلہ واقع ہے۔قدیم ڈیرہ غازیخان کی بنیاد حاجی خان (دودوائی)میرانی نے 1476ء میں اپنے اکلوتے بیٹے غازی خان کے نام پر دریا سندھ کے مغربی کنارے پر رکھی تھی۔ حسین خان لنگاہ والی ملتان نے افغانوں کے حملوں سے تنگ آکر دریا سندھ کے درمیانی حصہ میں بلوچوں کو اپنے دفاع کے لیے بسایا تھا۔ قدیم ڈیرہ غازیخان ڈیرہ پھلاں دا سہرا کے نام سے مشہور تھا لیکن بد قسمتی سے دریا سندھ نے قدیم ڈیرہ غازیخان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیاآخر کار اگست 1910ء میںعید الفطر کے دن قدیم ڈیرہ غازیخان کو ہمیشہ کے لیے نست و نابود کردیا۔ حکومت برطانیہ نے 1908ء سے موجودہ ڈیرہ غازیخان کو جدید شکل میں قدیم ڈیرہ غازیخان سے 22کلو میٹر دور بستی چورہٹہ کے نزدیک بسانے کا منصوبہ بنایا اور 1910ء میں موجودہ ڈیرہ غازیخان وجود میں آیا۔قدیم ڈیرہ غازیخان میں لوگوں کی تفریح اور ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزوں نے 1875ء میں شریف شاہ کے مقام پر میلہ اسپاں کا آغاز کیا۔ پورے جنوبی پنجاب سے لوگ جوق در جوق اس تاریخی میلہ میں شرکت کیا کرتے تھے، بعد میں یہ میلہ پیر عادل کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس تاریخی میلہ میں بلوچی اور سرائیکی ثقافت و روایات کو زبردست طریقے سے اجاگر کیا جاتا ہے۔1910ء میں جب نیا ڈیرہ غازیخان معرضِ وجود میں آیا تو 1912ء میں موجودہ ڈیرہ غازیخان میں پہلا تاریخی میلہ اسپاں کا انعقاد کیا گیا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ایم لونگ ورتھ ڈیمز نے موجودہ ریلوے اسٹیشن کی جگہ پر میلہ کا افتتاح کیا تھا۔ایک طویل عرصہ سے یہ تاریخی میلہ اسپاں پورے جنوبی پنجاب میں اپنی ایک تاریخی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے اس تاریخی میلہ کا انعقاد 22فروری سے 28فروری تک ہوتا ہے۔ موسم بہار کی آمد آمد ہونے کی وجہ سے اس میلہ میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ اس میلہ میں بلوچی نسل کی گھوڑیاں ،بیل اور اونٹ بھی بڑی تعداد میں لائے جاتے ہیں۔اس سال بھی یہ میلہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار کی خصوصی دلچسپی سے سخی سرور روڈ پر پوری آب و تاب کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ اس تاریخی میلہ کے انعقادمیںڈائریکٹر جنرل ہارس اینڈ کیٹل محمد یونس خان کھیتران نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ اس دفعہ اس تاریخی میلہ میں ڈی جی سپورٹس جاوید احمد چوہان کی خصوصی ہدایات پرڈویژنل سپورٹس آفیسر عطاء الرحمن خان بلوچ نے دیسی کشتیوں، کبڈی اور پتھر اٹھانے کے بہترین مقابلے منعقد کرائے۔ اس تاریخی میلہ میں گھوڑ دوڑاور نیزہ بازی کے بھی زبردست مقابلے منعقد کیے گئے نیزہ بازی کے مقابلوں میں بھکر اور دریا خان کی گھوڑا سوار ٹیموں نے حصہ لیا ۔آج کے اس پُر آشوب دور میں اس قسم کے تاریخی میلہ جات کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے کیونکہ ہر طرف معاشی پریشانیوں اور مہنگائی کی وجہ سے ہر دوسرا شخص نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوتا نظر آتا ہے۔ضروری ہے کہ معاشرے میں اس قسم کے تاریخی و تفریحی میلہ جات کے انعقاد کو عام کیا جائے۔ایسا تب ممکن ہوسکے گا جب حکومتی سطح پر کھیلوں اور تفریحی میلہ جات میں مکمل دلچسپی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس تاریخی میلہ میں کبھی ملک کے معروف فنکار عنایت حسین بھٹی ، عالم لوہار ، بالی جٹی، جیسے نامور لوک فنکار شرکت کیا کرتے تھے۔ عنایت حسین بھٹی مرحوم ،عالم لوہار مرحوم کا آپس میں زبردست مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے تھیٹر ایک دوسرے کے آمنے سامنے لگا کرتے تھے جس میں عوام کا رش بھی قابل رشک ہوا کرتا تھا ۔ عنایت حسین بھٹی مرحوم فلم عشق لیلیٰ کے معروف نغمہ ’’جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے ، محبت کا جنازہ جا رہا ہے ‘‘کی اپنی گونج دار آواز سے جونہی سُر لگاتے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی۔ اُس زمانے میں ادکارہ خانم بھی عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ہر پروگرام میں شرکت کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح عالم لوہار اور بالی جٹی کی جوڑی بھی اس تاریخی میلہ میں شرکت کر کے موسیقی سننے والوں پر سحر طاری کر دیا کرتی۔ عالم لوہار ،حضرت میاں محمد بخش کاپنجابی کلام اور جگنی سنا کر زبردست داد حاصل کیا کرتے تھے ۔ میلہ کے آخری دن گھڑ دوڑ کے تاریخی مقابلے منعقد کیے جاتے تھے ۔ جس میں بلوچی نسل کے گھوڑے اور نیز ہ بازشرکت کیاکرتے تھے ۔ ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے زیر اہتمام ان مقابلوں میں بلوچ لیوی کے گھڑ سوار بھی خصوصی شرکت کیا کرتے تھے ۔ اس سال نیزہ بازی اور گھڑ دوڑ کے مقابلوںمیں جام پور کے معروف قانون دان ملک محمد رفیق گجر نے خصوصی شرکت کی اور انہوں نے میلہ اپساں کے موقع پر اپنے خوبصورت سبز گھوڑے پر سوار ہو کر نیزہ بازی کا ایک خوبصورت مظاہرہ کیا جسے عوام نے زبردست پسند کیا ۔ میلہ کی اصل رونق بلوچی اونٹ اور داجل نسل کے بیل بھی توجہ کا مرکز بنے رہے اسی طرح میلہ میں دیسی کشتیوں کے بھی دلچسپ مقابلے منعقد کیے گئے ۔جبکہ لکی ایرانی سرکس نے بھی اس میلہ میں عوام کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا، کل مورخہ 28 فروری کو ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان ذیشان جاوید خان لاشاری نے لوکل چھٹی کا اعلان کر دیا ہے ۔ کیونکہ کل 28 فروری کو میلہ اپساں کا اختتامی دن ہو گا جس میں ہزاروں کی تعداد میں شائقین شرکت کریں گے ۔ الغرض میلہ اپساں صرف ڈیرہ غازی خان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب کی بھرپور نمائندگی کرنے میں دو سو سال سے ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ جس میں بلوچی اور سرائیکی ثقافت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس تاریخی میلہ کے اختتام کے فوراً بعد حضرت سخی سرور ؒ کا تاریخی میلہ شروع ہو گا جو 14 اپریل کو بیساکھی کے تہوار پر اختتام پذیر ہو گا ۔ حضرت سخی سرور ؒ صاحب کے عرس اور میلہ کی تقریبات میں پنجاب بھر سے لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں اور یہ پورے ملک کا سب سے بڑا میلہ شمار ہوتا ہے ۔