بلوچستان آدھا پاکستان ہے۔ رقبے کے پاکستان کا 43 فیصد۔ سوال یہ ہے کہ آدھے پاکستان کے مالک بلوچستان کو پر امن اور خوش حال کیسے بنایا جائے؟ اس سوال کا جواب نفرت ، علاقائیت اور تعصب سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ایک پاکستانی کے طور پر تلاش کرنا چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر اس کا موقف سمجھنے کی کوشش کریں۔ پنجاب اور اسلام آباد کے عام آدمی کو سمجھنا ہو گا کہ بلوچستان کی محرومی اور سوتیلے پن کی شکایت غلط نہیں ہے، درست ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے نوجوان کو سمجھنا ہو گا کہ اپنی ریاست سے اپنے حقوق لینے کی جدوجہد ایک الگ چیز ہے اور ریاست ہی کی مخالفت بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ بلوچستان کے مسائل پر میں نے بہت لکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں کی صورت حال سے دل دکھتا ہے۔میرے بس میں ہو تو وہاں تعلیمی اور معاشی ایمر جنسی لگا دوں ۔ صحت کی سہولیات نہیں ہیں ، انفرا سٹرکچر نہیں ہے، پانی کا بحران شدید ہے۔ یہی نہیں میں یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ قومی اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم کے لگے بندھے اصول ( کہ نشستیں آبادی کی بنیاد پر متعین ہوں گی) کو بدل دینا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے زمینی حقائق کا تقاضا ہے۔ اور اس میں رقبے کے اصول کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ بالعموم اس کا جواب لوگ یہ دیتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سینیٹ موجود ہے جہاں سب صوبوں کی سیٹیں برابر ہیں لیکن یہ جواب زمینی حقائق کی روشنی میں ناقص ہے۔بلوچستان کو انگیج کرنے کے لیے آئوٹ آف باکس سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان میں سترہ کی بجائے چالیس پچاس قومی اسمبلی کی نشستیں ہوں تو ہماری قومی قیادت بھی تواتر سے بلوچستان جانا شروع کر دے گی ، اور بلوچستان کا شراکت اقتدار کا احساس بھی پختہ تر ہو جائے گا۔ اگر خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے ہم نے طے شدہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے غیر منتخب خواتین کو اسمبلی میں لا بٹھانے کا راستہ نکال لیا ہے اور بغیر کسی حلقے کے عوام کے ووٹ لیے ہم خواتین کو قومی اسمبلی کا رکن بنا لیتے ہیں تو پھر یاد رکھیے کہ وفاق کی ایک اکائی کے لیے بھی کچھ کرنا ہو تو کیا جا سکتا ہے۔اصول یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا رکن براہ راست ووٹ سے بنے گا لیکن ہم نے اس اصول سے انحراف کیا اور غیر منتخب خواتین کو ایوان میں لا بٹھایا کہ اب یہ عوامی نمائندہ ہیں۔وفاق کی ایک اکائی کا بھی حق ہے ، اسے ضابطوں کی پیچیدگی کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کے دوستوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر خوش حالی مقصود ہے تو پھر ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ کرنا چاہیے، ان کی بے جا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ گوادر ہی کودیکھ لیجیے ، اس کے انتظامی مسائل یقینا ہوں گے ا ور انہیں حل کیا جانا چاہیے لیکن سی پیک ہی کی مخالفت کرنا اور چین کے انجینیئرز پر حملے کرنا اور ایسے پراجیکٹس کو وسائل پر قبضے سے تشبیہہ دینا مناسب نہیں ہے۔ ایک نیشن سٹیٹ کو قومی پراجیکٹس کے لیے یہ حق ہوتا ہے کہ وہ ملک بھر میں موزوں مقام کا تعین کر لے۔ گوادر اگر کراچی کے بعد ایک بڑی پورٹ بنتا ہے تو امکانات کا ایک جہاں مقامی لوگوں کے لیے بھی پیدا ہو گا۔ ان امکانات میں اگر کئی رکاوٹ ہے تو اس پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ ان امکانات کو مزید وسعت دینے اور مقامی لوگوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے لیے قانون سازی بھی کرنی پڑے تو کی جانی چاہیے۔ لیکن ایسے پراجیکٹس ہی کی مخالفت کرنا یہ کوئی مناسب رویہ نہیں۔ گوادر میں ماہی گیرں کی توانا آواز مولانا ہدایت الرحمن ہیں۔ ان کی بات کو توجہ سے سنا جانا چاہیے۔ مولانا کو بھی اس مسئلے کو ڈومی سائل کا مسئلہ بنانے کی بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والوں میں سب صوبوں کے لوگ شامل تھے۔ مسائل کے حل کی صورت ہی یہی ہے کہ پاکستانی بن کر پاکستان کے مسائل پر سوچا جائے۔ سی پیک کے امکانات کے خلاف قوتیں متحرک ہیں۔ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں۔ ان قوتوں کے خلاف ریاست بھی کامیابی سے بروئے کار آ رہی ہے۔ گلزار امام شنبے کی گرفتاری کے بعد صورت حال بدل رہی ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت لگے لیکن اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاملے کی تفہیم اور اس کے حل کے لیے ہم تمام عصبیتوں سے بالاتر ہو کر ایک پاکستان کے طور پر سوچیں۔ جو عناصر سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے اس موقف کی ترویج کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے گوادر میں کسی دوسرے صوبے کے لوگوں کو آنا ہی نہیں چاہیے کہ اس آباد کاری سے مقامی آبادی کے لیے مسائل پیدا ہوں گے وہ مقامی آبادی سے بھی دوستی نہیں دشمنی کر رہے ہیں۔ جب اتنے بڑے پراجیکٹ آتے ہیں تو ان کے ساتھ امکانات کی دنیا بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے ۔ اس وقت دنیا سے کٹ کر رہنا کوئی حل نہیں اور پھر ایک ملک کے اندر رہتے ہوئے ایسی حساسیت دکھنا تو ریاست کے بنیادی فہم اور تصور سے ہی متصادم ہے۔ اگر اس طرح معاملات چلانے ہیں تو پھر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ1958 تک تو گوادر عمان کا حصہ تھا۔ یہ 1958 میں پاکستان میں شامل ہوا جب وزیر اعظم پاکستان نے تین ملین ڈالر عمان کو ادا کر کے اسے عمان سے خرید لیا۔ خریدار ی کی یہ رقم بھی وفاق پاکستان کے قومی خزانے سے دی گئی۔ گوادر کو خریدنے کے بعد وفاقی حکومت نے ایسا نہیں کیا کہ اسے وفاقی علاقہ قرار دے دیا جاتا ۔ وفاقی حکومت نے اسے خرید کر بلوچستان میں شامل کیا تھا۔ظاہر ہے یہ کوئی احسان نہیں تھا یہ بلوچستان ہی کا حق تھا اور بلوچستان پاکستان ہی تھا۔اب کیا وفاقی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسی گوادر میں معاشی اور تزویراتی اہمیت کے منصوبے بنائے؟ بلوچستان کے مالک بلوچستان کے عوام ہی ہیں۔ بلوچستان ہی کے کیا ، وہ آدھے پاکستان کے مالک ہیں۔وفاق اور دیگر صوبوں کی اشرافیہ کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ بلوچستان کے لوگ آدھے پاکستان کے مالک ہیں ۔وہ کسی سے کم تر نہیں۔ ملک کے وسائل پر ان کا حق بھی اتنا ہے جتنا کسی اور ہے۔یہ بات مگر خود بلوچستا ن کے نوجوانوں کو بھی سمجھنی چاہیے ۔جب یہ بات سمجھ لی جائے گی تو پھر مطالبات کی نوعیت بھی بدل جائے گی اور اثر پزیری بھی۔اور کرنے کا کام بھی یہی ہے۔ بلوچستان کی خیر خواہی یہ نہیں کہ اسے جنگ کا میدان بنا دیا جائے ، خیر خواہی اس میں ہے کہ وہاں امن خوش حالی اور امکانات کے جہان تازہ آباد ہوں۔ یہ بات مگر محض کہہ دینے سے نہیں ہو گی۔ اس کے لیے وفاق کو اپنا رویہ اور اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ خوش حال بلوچستان ہی خوش حال پاکستان ہے۔