بچپن کا زمانہ گزرے زمانے ہو گئے۔ اب تو لگتا ہے کوئی اور جنم تھا جس کی یادیں بھی اتنی مدہم ہو گئیں کہ دھندلکے کی چلمن نے نقش و نگار ہی بجھا دیئے۔ خیر‘ مورد سے حیدر آباد جانا ہوتا ،تو راستے میں سکرنڈ ریلوے جنکشن پر گاڑی بدلنا پڑتی۔ برانچ لائن نواب شاہ کے لیے جاتی‘ وہاں سے مین لائن کی ایکسپریس گاڑی حیدر آباد یا کراچی لے جاتی۔ کہنے کو سکرنڈ جنکشن تھا لیکن دن بھر میں بس چار گاڑیاں آتیں اور جاتیں اور یہ برانچ لائن بھی کیا انوکھی تھی۔ محض دس میل لمبی‘ دنیا میں اتنی مختصر برانچ لائنیں بہت کم ہوں گی۔ سکرنڈ ریلوے جنکشن پر دیر تک رکنا پڑتا اور یہ وقت اخبار رسالے دیکھ کر اور چائے پی کر گزرتا۔ وسطی پلیٹ فارم پر ایک کینٹین تھی، جس پر بڑا سا بورڈ لپٹن چائے والوں کا آویزاں تھا اور اس پر سندھی زبان میں یہ مقولہ درج تھا: ہر وقت چانھ جووقت یعنی ہر وقت چائے کا وقت ہے۔ دلچسپ بورڈ تھا اور عجیب بات یہ تھی کہ یہ بورڈ صرف سکرنڈ ریلوے سٹیشن پر نظر آتا تھا اور کہیں نہیں۔ بات درست ھی۔ ناشتے کا وقت ہوتا ہے‘ دوپہر کے کھانے کا بھی اور رات کے عشائیے کا بھی لیکن چائے کی طلب کسی بھی وقت ہو سکتی ہے‘ وہ کسی بھی وقت پی جا سکتی ہے۔ اس کا کوئی وقت نہیں۔ کوئی آپ کو یہ طعنہ نہیں دے سکتا کہ میاں چائے پینے کا یہ کون سا وقت ہے۔ وقت بے وقت کا سوال کھانے پر ہوسکتا ہے‘ چائے پر نہیں۔ اب تو وہ ساری برانچ لائنیں خواب و خیال ہوئیں۔ جہاں جنکشن تھے‘ اب خرابے آباد ہیں۔ ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور نے ملک سے جو اچھی بات ختم کرنے کی رسم بنائی جو اب استوار ہو گئی ہے۔ اسی دور میں ریلوے کو ختم کرنے کا پلان بنا جو اب پایہ تکمیل کے قریب جا پہنچا ہے۔ ٭٭٭٭ چائے کی طرح موت اور مصیبت کا بھی کوئی وقت نہیں ہوتا۔ شاعر حضرات موت کو پت جھڑ سے تشبیہہ دیتے ہیں لیکن یہ تشبیہہ نام ہے۔ پت جھڑ سال کے اخیر میں دو ماہ کے لیے آتی ہے‘ موت کا موسم سدا بہار ہے‘ سال کے بارہ مہینے‘ مہینے کے تیسوں دن‘ دن کے چوبیس گھنٹے اور اب یہی حال مصیبتوں کا ہے۔ یہ مت سمجھئے کہ کسی کو قصور وار ٹھہرانے کا ارادہ ہے لیکن سچ تو بھی ہے کہ بلائوں کا نزول سدا بہار رت کی طرح کوئی اڑھائی سال سے ہی شروع ہوا ہے۔ یوں تو پاکستان جب سے بنا ہے‘ مصیبتوں اور بلائوں نے مملکت خداداد کو خانہ انوری سمجھ لیا ہے لیکن یہ اڑھائی سال جو گزرے ہیں اس کا تو پوچھئے ہی مت۔ غالب سے معذرت کے ساتھ: قاطع اعمار ہیں اکثر نجوم ’’یہ‘‘ بلائے آسمانی اور ہے ہومکیں غالب بلائیں سب تمام والا مرحلہ تو آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بہرحال‘ ہر غزل کا مقطع ہوا کرتا ہے لیکن لگتا ہے‘ شاعر نے اپنے اس سرغزلے کا مقطع ابھی لکھا ہی نہیں۔ ٭٭٭٭ ایک خبر بتاتی ہے جرائم اتنے فیصد ہو گئے‘ دوسری میں لکھا ہوتا ہے حادثات کی شرح اتنی زیادہ ہو گئی‘ تیسری بتاتی ہے رشوت کے نرخ آسمان کو چھوے لگے‘ چوتھی کہتی ہے کورونا کی شرح دس فیصد سے بھی آگے نکل گئی۔ ایک مضمون کہتا ہے بچوں کے قتل میں اضافہ چونکا دینے والا ہے لیکن ان سب بلائوں کی مادر ملکہ تو مہنگائی ہے۔ بجلی کے نرخ اب ہر ہفتے بڑھتے ہیں‘ پٹرول کے ہر پندھرواڑے۔ دال سبزی آٹا سے لے کر سیمنٹ اور کپڑوں تک ہر شے پھر کیوں نہ مہنگی ہو۔ عمران خان کا خیال ہے کہ عوام میں بہت جان باقی ہے، ابھی اور نکالو اور دم بدم بے دم ہوتے عوام میں آسمان کو نظر بھر دیکھنے کا دم خم بھی نہیں رہا۔ ٭٭٭٭ لوٹ مار کو این آر او دینے کا موسم ایسا پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔معاون پٹرولیم ندیم بابر سے استعفے لیے جانے کی خبر سے جہانگیر ترین سے دور اور وزیر صحت کا محکمہ بدلنے کی تادیبی کارروائیاں یاد آ گئیں۔ ندیم بابر کا تعلق اس سکینڈل سے ہے جس میں پٹرول سازش کے تحت نایاب۔ پھر مہنگا کر کے اربوں کی دیہاڑی لگائی گئی۔ حکومت نے کہا‘ ندیم بابر بے قصور ہیں۔ اب استعفیٰ تو لے لیا گیا‘ وہ لوٹے گئے تو لکڑ ہضم پتھر ہضم ہو چکے۔ گیس میں اربوں کمائے گئے‘ اربوں‘ آٹے میں کھائے گئے اور نہ جانے کہاں کہاں کی کیسی کسی داستانیں ہیں‘ سب پر یکساں مٹی ڈال کرانصاف کے تقاضے تحریک انصاف نے پورے کردیئے۔ ٭٭٭٭٭ انصاف کا ایک اور تقاضا کیسے پورا کیا گیا‘ ذرا دیکھئے۔ سانحہ ساہیوال کے ملزم پولیس افسر کو یوم پاکستان پر تمغہ شجاعت دیا گیا۔ سانحہ یہ تھا کہ میاں بیوی سمیت چار افراد کو پولیس نے دہشت گرد قرار دے کر برسر شاہراہ سب کے سامنے قتل کردیا تھا۔ چاروں بے گناہ تھے۔ تین تو پولیس مقابلہ میں مار دیئے گئے‘ ایک دس سال کی بچی زندہ بچ گئی۔ اسے افسر نے کار سے گھسیٹ کر نکالا۔ ساتھی نے کہا‘ اسے تو گولی نہیں لگی۔ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ افسر نے کہا نہیں‘ یہ سب کو بتا دے گی۔ ماں باپ کی لاشوں سے چمٹی سہمی بچی کو کار سے کھینچ کر باہر نکالا اور بس ۔ آسان کام نہیں۔ تمغہ شجاعت تو بنتا ہے۔ اب دیکھئے‘ رائو انوار اور عزیر بلوچ کو کب یہ تمغہ ملتا ہے۔ ٭٭٭٭ دو بچے چار سدہ میں قتل ہوئے‘ تین سالہ بچی مریم فاطمہ کوہاٹ میں قتل کرنے سے پہلے اس کا منہ اور سر توڑا گیا‘ ٹانگیں اور ہاتھ چکنا چور کئے گئے۔