فلسطین، یوکرائین ، برما، سوڈان ، یمن ، شام، کانگو سمیت اس وقت دنیا میں کم از کم 32مقامات پر مسلح جنگیں چل رہی ہیں۔ ان مسلح تنازعات میں ہر برس کم از کم اڑھائی لاکھ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کی وجہ بظاہر مذہب بتائی جائے یا نظریاتی اختلاف، اصل میں اس کے پردے میں یہ زمین کے کسی نہ کسی ٹکڑے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سعی ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان زمین کے ٹکروں کے لیے تو جان لے بھی رہا ہے اور جان دے بھی رہا ہے لیکن مجموعی طور پر زمین کا قتل بھی کر رہا ہے۔ جس زمین کے لیے اتنا خون بہایا جا رہا ہے اس کی کتنی زندگی باقی ہے؟ اس بارے میں یقینی پیش گوئی تو ممکن نہیں لیکن اس بارے میں فکر مند سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر حضرت انسان کے طور طریقے جلد تبدیل نہ ہوئے تو ترقی کے نام پر زمینی وسائل کے اختتام، آب و ہوا میں تبدیلی، آلودگی، گلوبل وارمنگ کی بنا پر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہمارا یہ سیارہ یعنی زمین حیات کے لیے قابل رہائش نہیں رہے گا۔ جب قابل رہائش زمین ہی نہیں رہے گی تو اس کے جن ٹکڑوں کے لیے اتنی جنگیں ہو رہی ہیں کس کام آئیں گے؟ انسان کی جدید ٹیکنالوجی تیرہ ارب نوری سال سے زیادہ دور تک دیکھ رہی ہیں۔ یہ اتنا فاصلہ اور اتنی بڑی کائنات ہے کہ انسانی دماغ اس کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ واحد چیز جو اس سیارے کو ، جو ہمارا گھر ہے، کسی بھی زندگی کے لیے قابل رہائش بناتی ہے وہ ہے اسکا ـ’’ماحول‘‘۔ صرف زندگی ہی نہیں ہمارا تمام کاروبار حیات اس ماحول کا مرہون منت ہے۔ ہمارے جنگل،دریا، سمندر اور یہاں تک کہ ہماری مٹی ہی ہے جو ہمیں زندہ رہنے کے لیے خوراک بھی دیتی ہے اور ہماری معیشت کی بنیاد بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیں یہ سب مفت ملتا ہے اس لیے ہمیں ابھی تک بجا طور پر اس سب کی اہمیت کا اندازہ نہیں، اسی لیے ہم قدرت اور فطرت کے ساتھ رہنا نہیں سیکھ سکے اور ہمارا رہن سہن اس سب کو تباہ کر رہا ہے۔ گزشتہ د و سو برس میں ترقی کے نام پر ہم نے اس زمین کو اتنا نقصان پہنچایا ہے جو اس سے قبل کروڑوں برس میں بھی نہیں پہنچا تھا۔ اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو، ورلڈ بینک کی ایک رپوٹ کے مطابق اگلے25برسوں میں تمام دنیا میں تقریباََ 143ملین انسان خوراک اور پانی کے لیے یا دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر ہو سکتے ہیں۔ اور اگلے پچاس برسوں میںہماری زمین کا بیس فیصد حصہ ناقابل رہائش ہو جائے گا۔ جی ہاں یہ کوئی سینکڑوں برس مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں نہیں بلکہ چالیس پچاس برس بعد کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی ہماری اگلی نسل کو یہ سب کچھ بھگتنا پڑے گا۔ انسان کو اس سب کا احساس دلانے کے لیے ، اس امید کے ساتھ کہ انسان اس بارے میں سنجیدہ ہو کر سوچنے لگے گا، اقوام متحدہ ہر سال آج کے دن یعنی 22 اپریل کو ’’ارتھ ڈے‘‘ یعنی زمین کا عالمی دن مناتی ہے۔ اس برس اس عالمی دن کا خیالیہ ’’پلاسٹک کا اختتام ‘‘ ہے۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے قدرتی ذخائر پاکستان میں ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی بنا ہر درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پہاڑوں پر برف زیادہ پگھلتی ہے، دنیا کے مختلف علاقوں میں ہوا کے دبائو میں فرق جلدی اور زیادہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دنیا میں بارشیں اور طوفان بڑھ رہے ہیں۔ درجہ حرارت اور گرمی میں شدید اضافہ سیلابوں اور سطح سمندر کی اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ اگر حالات اسی طرح اور اسی ڈگر پر چلتے رہے تو متوقع طور پر آنے والے آٹھ دس برسوں میں دنیا میں سالانہ اڑھائی لاکھ سے زائد افراد ان قدرتی آفات کی وجہ سے موت کا شکار ہوا کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے نقصانات زمین کے جن حصوں پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہونے متوقع ہیں ہم زمین کے اسی حصے پر موجود ہیں۔ اسی لیے اس بارے میں عالمی سطح پر آواز بلند کرنا، اور ملکی سطح پر خود اقدامات کرنا نہ صرف ہمارے لیے اہم ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری مجبوری ہے۔ انسانی حقوق سے زیادہ اہم اس زمین کا حق ہے جس کی خاک سے انسانیت نے جنم لیا تھا۔ اور اس حق کا تقاضا ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ وسیع تر تناظر میں یہ ’ ’ زمین‘‘ انسان کا گھر ہے اور ہر انسان کو اسکی حفاظت اسی طرح کرنی چاہئے جس طرح وہ اس گھر کی کرتا ہے جس میں وہ رہائش پذیر ہوتا ہے۔کھیتی باڑی میں قدرتی طور طریقوں کو فروغ دیا جائے۔ کیمیکل اور پیک شدہ چیزوں کی بجائے پرانے اور قدرتی طریقوں اور اپنے قرب و جوار کی خوراک کو فوقیت دی جائے۔ پانی کے ضیاع کا خاتمہ اور ہر ممکن حد تک کیمیکلز کے استعمال کو کم کریں۔ قریبی اور درمیانہ دوری تک آنے جانے کے لیے پیدل یا سائیکلوں پر سفر کو اپنایا جائے۔ یہ ماحول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کو دل، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں سے بچانے کا باعث بھی بنے گا۔ پلاسٹک کی مصنوعات اور پلاسٹک بیگز پر پابندی کے انتظار کی بجائے ہم خود ان سب کا استعمال مکمل ترک کر دیں۔ موبائل، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی بجائے فطرت، قدرت اور ماحول کے ساتھ وقت گزاریں اور دوستی کریں۔ ان انفرادی اقدامات کے ساتھ ساتھ صوبائی اور قومی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر حقیقی طور پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔ درختوں کھلیانوں کو کاٹ کر ہائوسنگ سوسائیٹیاں بنانے کی بجائے ہماری توجہ پہلے سے موجود درختوں کی حفاظت اور زیادہ سے زیادہ نئے درخت اور جنگلات لگانے کی جانب ہونی چاہئے۔ اسی طرح بارشوں اور سیلابوں کے درمیا ن ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ اور بعد ازاں استعمال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم جلد از جلد بنانا بھی ضروری ہے۔ کوشش ہونی چاہئے کہ اگلے بیس پچیس برسوں میں ہماری تمام بجلی کی پیداوار تیل، کوئلے اور ایندھن کی بجائے پانی، ہوا اور سورج سے ہو رہی ہو۔ یہ نہ صرف ہم سب کی اجتماعی بقا کی جنگ ہے، بلکہ در حقیقت تمام دنیا کی تمام حیات کا مستقبل دائو پر لگا ہے۔خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔