روس اور یوکرائن کے مابین 24فروری 2022 ء سے شروع ہونے والی جنگ کو اب دو سال ہوگئے ہیں اگرچہ یوکرائن کی طرف سے روس کے حملے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور کچھ محاذوں پر روسی افواج کو سخت مالی اور جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں ہونے والی اس سب سے بڑی جنگ کا دو سال بعد بھی خاتمہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں یوکرائنی باشندے بے گھر ہوئے ہیں اور یورپ کا جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ دوسری طرف، اس جنگ نے سپلائی چین میں خلل ڈال کر، افراط زر میں اضافہ کر کے، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال کو جنم دے کر پوری دنیا کی معیشتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔اب جبکہ جنگ کو دو سال ہوگئے ہیں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ دو سال سے جاری اس جنگ سے روس اور مغربی طاقتوں کے لیے کیا سبق ہے؟ جب جنگ شروع ہوئی تو شاید پوری دنیا کو توقع تھی کہ روس جلد ہی یوکرائن کی دفاعی طاقت پر قابو پالے گا اور دارالحکومت کیف پر قبضہ کر لے گا۔ حتیٰ کہ فروری 2022ء کے آغاز میں، اس وقت کے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے مبینہ طور پر کانگریس کے رہنماؤں کو بتایا کہ روسی حملے کی صورت میں، یوکرائن 72 گھنٹوں میں ٹوٹ سکتا ہے مگر اب دو سال ہو چکے ہیں اور یوکرائنی باشندوں نے روسی افواج کو قابو کر رکھا ہے اور بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ اپنے ملک کا دفاع کررہے ہیں۔ اگرچہ یوکرائنی اکیلے لڑرہے ہیں لیکن اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کی طرف سے انہیں معاشی اور فوجی حمایت حاصل ہے۔ جنگ کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس کو جنگ میں سبقت حاصل ہے اور یوکرائنی افواج کو جنگی آلات اور افرادی قوت کی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔ دوسری طرف، روس اس جنگ میں کامیابی کے ساتھ اپنی حکمت عملی کو تبدیل اور درست کرنے میں کامیاب رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو مغربی پابندیوں سے بچانے میں کامیاب رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق روسی معیشت دراصل جس عروج پر آج ہے اس کی مغرب کو توقع نہیں تھی۔ پیوٹن کی سلامتی کونسل کے سربراہ نکولائی پاتروشیف نے جون2022 ء میں دیئے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ روسی افواج یوکرائن میں "ڈیڈ لائن کا پیچھا نہیں کر رہی ہیں" جس سے یہ تاثر ملا کہ روسی صدر پیوٹن کے پاس یوکرائن میں اپنی جنگ کے لیے بہت زیادہ وقت (ٹائم لائن) ہے۔ اِس کے برعکس یوکرائن کو خدشہ تھا کہ بین الاقوامی دنیا موجودہ جنگ سے اکتاہٹ کا شکار ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری یوکرائنی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ پیوٹن حکومت کو مراعات دے۔ اِیک گرفتار طالبان جنگجو سے منسوب یہ کہاوت ہے کہ "آپ کے پاس گھڑیاں ہیں، لیکن ہمارے پاس وقت ہے"۔ یوکرائن جنگ کے تناظر میں اِس جملے کو دوبارہ اِس طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے کہ "یوکرائن جنگ میں فیصلہ کن عنصر یہ ہوسکتا ہے کہ کِس فریق کے پاس وقت زیادہ ہے: ایک روسی ڈکٹیٹر جو مغربی دنیا کے بقول مرنے تک اقتدار پر فائز رہ سکتا ہے، یا یوکرائنی عوام جو اپنی قومی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں"۔ وقت بتائے گا کہ اِس جنگ کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے اور کونسا فریق اَپنے اَہداف کس حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ تاہم اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ مستقبل کی عالمی سیاست میں روس کے کردار کو متعین کرے گی۔ روس کے یوکرائن پر حملے کی بنیادہ وجہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع ہے جو روس کے لیے سخت تشویش ہے جسے روس اپنے اہم مفادات کے لیے خطرہ اور خطے میں اثر و رسوخ کے لیے ایک دھچکا سمجھتا ہے۔ نیٹو - نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن - ایک فوجی اتحاد ہے جسے 1949 میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس سمیت 12 ممالک نے تشکیل دیا تھا۔ اس کا مقصد یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی توسیع کے خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔ 1955 میں سوویت روس نے مشرقی یورپی کمیونسٹ ممالک کا اپنا فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد وارسا معاہدے کے کئی سابقہ ممالک نیٹو کے رکن بن گئے۔ روس مشرقی یورپی ممالک، جو سرد جنگ کے دور میں سوویت اتحادی تھے، تک نیٹو کی توسیع کو، اپنے اوپر مستقل دباؤ کا عنصر سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ نیٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ اس وقت نیٹو اتحاد کے لیے فوری طور پر کوئی چیلنج نہیں ہے جبکہ نیٹو کو کسی بھی قسم کا سیاسی اور دفاعی نقصان پہنچنے کا فوری خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ نیٹو کو روس کے اقدامات سے تقویت ملی ہے۔ فن لینڈ اور سویڈن جیسے غیر جانبدار ممالک نیٹو میں نئے ارکان کے طور پرشامل ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں نیٹو کے ساتھ روس کی سرحد کی لمبائی درحقیقت بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ جنگ نے یورپ کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے، جبکہ یورپ میں نئی قسم کی دائیں بازو کی سیاست شروع ہو رہی ہے البتہ یوکرائن کی جنگ کی مجموعی حمایت یورپ میں کسی طور کم نہیں ہو رہی۔ اس جنگ کا ایک یقینی نتیجہ یورپ کا زیادہ عسکری ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ پورے براعظم کے ممالک اب دفاع پر پہلے کے مقابلے میں زیادہ خرچ کریں گے اور مستقبل قریب میں نیٹو اتحاد یورپ کے لیے ایک مضبوط فوجی حفاظتی پہلو ہوگا۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ دو سال پہلے کے مقابلے ولادی میر پوٹن کہاں کھڑے ہیں؟ کیا جنگ کی وجہ سے روس کے عوام میں اس کا قد بڑھ گیا ہے یا پوٹن کی مقبولیت کم ہوگئی ہے؟ خاص طور پر جب مارچ میں روس میں الیکشن منعقد ہونے والے ہیں۔ لیکن اگر آپ روسی میڈیا اور اس پر دکھائے گئے روسی عوام کے ردعمل کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن نے اپنی حمایت نہ صرف برقرار رکھی ہے بلکہ وہ مسلسل عوامی حمایت حاصل کر رہے ہیں ،جس طرح شاید مارچ کے انتخابات کے دوران دکھایا جائے گا۔ ان حالات میں یہی معلوم ہوتا کہ مارچ کے انتخابات میں روسی صدر پیوٹن کے جیتنے کی توقع ہے۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے کہ آیا جنگ نے صدر پیوٹن کے قد میں اضافہ کیا ہے؟ تاہم میڈیا کی اطلاعات کے مطابق۔ زیادہ تر روسی جنگ کے تصور کو پسند نہیں کرتے اور اگر وہ پوتن کی حمایت کرتے ہیں اور جنگ کی حمایت کرتے ہیں، تو وہ یہ چاہیں گے کہ یہ جنگ جلد ختم ہو جائے۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب روس اور یوکرائن کے مابین دو سال سے جاری اس جنگ کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیئے تاکہ معصوم اور بے گناہ شہری مزید جانی و مالی نقصان سے بچ سکیں۔