روایتی طریقہ انتخابات کے ماحولیاتی اثرات صرف بیلٹ پیپرز تک ہی محدود نہیں ہیں ۔انتخابی مہمات کے لئے تیار کردہ مواد میں استعما ل ہونیوالا کاغذ اس کے علاوہ ہے جس کی مقدار یقینی طور پر بیلٹ پیپرز سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ موجودہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہر امیدوار کے لیے منفرد انتخابی نشانات کی وجہ سے انتخابی مہم کے موادکا دائرہ کار مزید وسیع ہو گیا۔اگر فرض کر لیا جائے کہ تمام تر انتخابی مہمات کیلئے درکار کاغذ کے مجموعی اثرات بیلٹ پیپرز کے اثرات کے مساوی ہیں تو پورے انتخابی عمل کیلئے درکار درختوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے۔جبکہ اس ضمن میںکاغذ کی درآمدات بھی معیشت اورتجارت کیلئے درکارذخائر پر دباؤ میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں، جس سے یقینی طورپر معاشی چیلنجز میںبھی اضافہ ہوتا ہے۔ دراصل، درخت لکڑی اور پھلوں کے علاوہ ،بے شمار ماحولیاتی ثمرات کا پیش خیمہ بھی ہیں مثلاََ آکسیجن کی پیدائش، کاربن ڈائی آکسائڈ کا جذب ،مٹی کے کٹائو اورفضائی آلودگی میںکمی ،جانوروں کی رہائش کا ذریعہ ، وغیرہ ۔چنانچہ انتخابی عمل کے لیے درکار کاغذ جتنے وسیع پیمانے پر جنگلات کے کٹائو کا سبب بنتا ہے وہ اُتنے ہی بڑے پیمانے پر ماحولیاتی نقصانات ، یا ماحولیاتی ثمرات کے ضیاع کا سبب بھی بنتا ہے ۔چونکہ ہمارا جنگلات کا رقبہ عالمی معیارات سے پہلے ہی بہت کم ہے جو اس وقت صرف 4.8فیصدکے قریب ہے،چنانچہ یہ عمل پاکستان جیسے ملک کیلئے مزید پریشانی کا باعث ہو نا چاہیے ۔ تمام تر ماحولیاتی ثمرات کے ضیاع کو مدِنظر رکھا جائے تو کسی درخت کی معاشی قدروقیمت کا تعین ایک پیچیدہ عمل ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج تک پاکستان میںکسی محقق نے درختوں سے حاصل ہونیوالے تمام تر ماحولیاتی ثمرات کی بنیاد پر کوئی معاشی تجزیہ پیش نہیں کیا ۔جس سے اتنے وسیع پیمانے پر درختوں کے کٹائو سے ہونیوالے ملکی معاشی نقصان کا تخمینہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسال قبل انڈین سپریم کورٹ نے356درختوں کی کٹائی سے متعلق ایک کیس کے سلسلے میں ماہرین پر مشتعمل ایک کمیٹی کو یہ ذمہ دار ی دی تھی کہ درخت کی معاشی قدر کا اندازہ لگائیں ۔ ان کے مطابق ایک درخت کی معاشی قدر ایک کروڑانڈین روپے بنتی ہے ۔ اگر اسی کو بنیاد تصور کر لیا جائے توحالیہ انتخابات میں بیلٹ پیپرز کیلئے درکار 52080درختوں کے نقصان کا کل تخمینہ 1760ارب روپے بنتا ہے جو کہ ہماری GDPکا تقریباََ2.1فیصد ہے۔اس میں انتخابی مہمات کے اثرات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تخمینہ 3500ارب سے زائد ہو جاتا ہے۔ درختوں کی درست معاشی قدر کے تعین کے لئے ڈاکٹر ٹی ایم داس نے ایک نہایت جامع فارمولہ تجویز کیا ہے، جس کے مطابق ایک درخت کی معاشی قدر 193250ڈالر بنتی ہے۔ڈاکٹر داس کا یہ تخمینہ آکسیجن کی فراہمی، مٹی کے کٹاؤ میں کمی، آلودگی میں کمی، اور جانوروں کیلیے رہائش کے معاشی فوائد کا احاطہ کرتا ہے۔اگرچہ کچھ اور عوامل کو بھی اس کا حصہ بنایا جا سکتا ہے مگر فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہوئے روایتی طریقہ انتخاب سے ہونیوالے نقصان کا تخمینہ لگا یا جائے تو یہ 2.8کھرب روپے بنتا ہے جو کہ ہماری GDPکا 3.32فیصد ہے۔جبکہ انتخابی مہمات کے نقصانات کو اس میں شامل کیا جائے تو یہ اندازہ 5.6کھرب سے زائد ہو جاتاہے۔ روایتی طریقہ انتخابات کے نقصانات صرف انہی عوامل تک محدود نہیں ہیں ۔بیلٹ پیپرز کی تیاری میں بے شمار قدرتی وسائل بھی صَرف ہوتے ہیں ،جیساکہ پانی،توانائی اورمختلف کیمیکلز۔چنانچہ یہ عمل ان وسائل میں خاطر خواہ کمی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی ترسیل اور نقل وحمل میں استعمال ہونیوالا ایندھن فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ مزید برآں استعمال شدہ بیلٹ پیپرز کو تلف کر نے کے طریقے جیسے کہ جلانا یا لینڈفل،سبھی ایسے ماحولیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بنتے ہیںجن کے اثرات طویل عرصے پر محیط ہوتے ہیں، چنانچہ مجموعی طور پر، انتخابی عمل کے ماحولیاتی نقصانات سالانہ جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ موجودہ طریقہ انتخابات کے اتنے گہرے اور وسیع ماحولیاتی مضمرات کو دیکھتے ہوئے، الیکٹرانک طریقہ انتخاب ایک فوری ضرورت کی شکل میں سامنے آتاہے۔ جس سے نا صرف کاغذ کی طلب کو کم کرکے اور نقل و حمل سے وابستہ توانائی کی کھپت اور اخراج کو کم کرکے ،جنگلات کی کٹائی کی شرح کو نمایاں طور پر کم کیا جاسکتا ہے بلکہ اس طریقہ کار کے عملی اطلاق کے لئے معاشی وسائل بھی کم درکار ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں الیکٹرانک طریقہ انتخابات کے انعقاد کا تخمینہ25ارب کے لگ بھگ تھا جو کہ GE-2018 الیکشن کیلئے مختص کئے گئے بجٹ (21 بلین) سے 19 فیصدزائد جبکہ موجودہ انتخابات کیلئے مختص کے گئے بجٹ ، 48ارب سے، 84فیصد کم ہے۔ تاہم، ملک گیر انتخابات کا ایک ہی دن میں انعقاد غیر ضروری ہے، جیسا کہ بہت سے ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ایک بہترین تجویز یہ ہے کہ انتخابات کا نعقاد مرحلہ وار ہو ،جس کا آغاز صوبہ پنجاب سے کیا جائے اور پھر مرحلہ وار اسے دوسرے صوبوں تک پھیلایا جائے۔ اس طریقہ کار کو اپنانے سے نا صرف کم ای وی ایمز درکار ہوں گی بلکہ عملی اخراجات بھی مزید کم ہو جائیں گے۔ مزید برآں، EVMs کی خریداری صرف ایک بار کا خرچ ہے جبکہ یہ مشینیں انتخابات کے علاوہ بھی مختلف مقاصد کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ اس طریقہ انتخاب کو لاگو کرتے ہوئے سائبر سیکورٹی جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتاہے مگر یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ، ٹیکنالوجی میں ترقی اور مضبوط حفاظتی اقدامات کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم، الیکٹرانک طریقہ انتخابات میں منتقلی کے ماحولیاتی فوائد ممکنہ کمزوریوں سے کہیں زیادہ ہیں، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کیلئے جسے پہلے ہی شدید فضائی آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے۔(ختم شد)