ان کا ہر روپ سندر تھا۔ زندگی محنت اور کچھ کر دکھانے کے جذبے سے گزاری۔ بڑی بااصول خاتون تھیں اوروقت کی اتنی پابند کہ ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں جب بھی پروگرام کیلئے جاتیں تو ان کی مثال دی جاتی۔ حیدر آباد کا ریڈیو اسٹیشن آرٹسٹوں کیلئے ایک مثالی درسگاہ، یہاں سے کیا کیا تابندہ ستارے جگمگائے۔ زیڈ اے بخاری جیسے استاد اور ہر فن مولا براڈ کاسٹر، جن کی قیادت میں یہ اسٹیشن ا ایک چمن کی مانند تھا جس میں طرح طرح کے پھول کھلے۔ چھ دہائیاں گزریں۔ گاڑی کھاتہ میں فردوس سینما کے سامنے واقع گلی میں ایک دراز قد اورسیکڑوں میں منفرد نظر آنے والا سجیلا نوجوان قریبی مسجد کے پیش امام کا فرمانبردار بیٹا، یہ بھی اسی درسگاہ سے یہ جان سکا کہ اداکاری اور صداکاری کس آرٹ کا نام ہے۔ آواز کا اتار چڑھاؤ‘ دائیلاگ ڈیلیوری‘ آواز سے سب کچھ بیان کردینے کا فن کیا ہوتا ہے۔ اس نے بڑی سکرین پر اپنا ایسا تاثر چھوڑا جو اثر انگیزی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جی ہاں یہ پاکستان کے صف اول کے اداکار محمد علی تھے۔ اور حیدر آباد سٹیشن مصطفی قریشی اور روبینہ قریشی کی بھی ابتدائی درسگاہ تھی۔ روبینہ نے بھی اسی جگہ سے فن کی ابجد سیکھی۔ مترنم آواز اور کھنک ان کو قدرت کا عطیہ ملا تھا۔ پھر اسی شہر حیدر آباد کی ادبی اور ثقافتی و سماجی رنگ برنگی صحبت نے ان کی صلاحیتوں میں ایسا رنگ بھردیا۔ شخصیت اور فن کو اس طرح سنوار دیا کہ یہ فنکاروں کے اس جھمگٹے میں الگ ہی نظر آنے لگیں۔ مصطفی قریشی سے شادی کے بعد روبینہ قریشی کے فنی سفر کو کوئی دھچکا نہیں لگا۔ بلکہ بحیثیت فنکار مصطفی قریشی نے اپنی شریک حیات کو نہ صرف کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کی ترغیب دی بلکہ ہر قدم پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے۔ مصطفی قریشی کی چھوٹی گٹی کے نیچے گھڑیوں کی ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ یہ حیدر آباد کی ایک خوشحال فیملی تھی۔ فلم میں کام کرنے کا شوق مصطفی قریشی کا جنون تھا‘ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان دونوں میاں بیوی نے اپنے اپنے شعبوں میں نہ صرف خود کو منوایا بلکہ بڑی شہرت سمیٹی۔ لاہور میں ایک وقت وہ بھی دیکھا کہ سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی جوڑی نے پنجابی فلموں میں تہلکہ مچادیا‘ بلکہ کسی فلم میں ان دونوں کی جوڑی کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ جہاں سلطان راہی کے زبردست جارحانہ انداز اور دوسری طرف مصطفی قریشی کا اپنا تیکھا اور انوکھا انداز۔ یہاں تک کہ اس دور میں نوجوان فلمی شائقین کو ان کے ڈائیلاگ ازبر ہوگئے تھے۔ میں 2001ء میں دو تین سال لاہور میں رہا۔ اس دوران مصطفی قریشی‘ محمد علی اور روبینہ قریشی سے ملاقات رہی۔ دونوں میاں بیوی بہت ہی ملنسار اور خوش گفتار تھے۔ رواداری ان دونوں کی فطرت اور خصلت میں سمائی ہوئی تھی۔ ان کا بڑا حلقہ احباب تھا۔ روبینہ قریشی گھریلو زندگی میں انتہائی سلیقہ مند خاتون تھیں۔ گھر میں پورا وقت دیتیں۔ موسیقی ان کی جان تھی۔ اس کیلئے انہوں نے بہت سخت ریاضت کی۔ اب وہ ہم میں نہیں رہیں۔ اپنے بہت وسیع حلقہ احباب کو اداس چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ یہاں ہم ان کی زندگی پر ایک نظر ڈا لتے ہیں۔ حیدر آباد کی وہ خوبصورت شامیں‘ لوگوں کے مابین مثالی محبت و پیار‘ ایثار اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کی روایات سب کچھ بہت ہی یادگار تھا۔ وہ وقت کبھی نہیں بھولا جاسکتا ہے۔ روبینہ قریشی بھی اسی شہر کی روایات کی چلتی پھرتی تصویر تھیں۔ 19 اکتوبر 1940 کو حیدر آباد میں الٰہی بخش شیخ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کاپیدائشی نام عائشہ تھا تاہم انہوں نے خود کو فن میں روبینہ کے نام سے متعارف کرایا۔ مصطفی قریشی سے شادی کے بعد انہوں نے اپنے نام کے ساتھ قریشی کا اضافہ کرلیا۔ ان کا خاندان سندھ کے پڑھے لکھے خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ حیدر آباد میں گورنمنٹ ہائی اسکول اور پھر کالج میں انہیں آپا شمس عباسی جیسی زبردست صلاحیتوں اور خوبیوں کی حامل استاد کی صحبت نے نکھار دیا۔ 1955ئ￿ میں جب ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے نشریات کا آغاز ہوا تو روبینہ نے بھی اس مثالی درسگاہ میں اپنے فن کی آ بیاری کی۔ یہ ریڈیو پاکستان حیدر آباد کے ابتدائی فنکاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ اپنی گزری یادوں کو وہ بیان کرتے ہوئے بتاتی تھیں کہ ان کا ریڈیو پر پہلا آڈیشن جی ایم بی انصاری اور محمد ابراہیم نے لیا ۔جب انہیں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تو ان کی کھنکتی اور مہکتی آواز نے سندھ دھرتی پر دھوم مچادی۔ انہوں نے لوک گیت‘ کافیوں اور مختلف نغمے گاکر سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انہوںنے ڈراموں میں بھی کام کیا اور پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ یہ پاکستان میں فن اور فنکاروں کی زندگیوں اور ان میں نکھار کے ابتدائی دن تھے۔ اس دوران انہوں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور سندھ یونیورسٹی سے مسلم ہسٹری میں ایم اے کیا۔ وہ حیدر آباد میں کچھ عرصے تدریس سے بھی منسلک رہیں۔ پھر مصطفی قریشی کی لاہور میں فلمی مصروفیات کے سبب وہ اپنے شوہر کے ساتھ وہاں مستقل منتقل ہوگئیں۔ انہوں نے بعد میں محمد ابراہیم اور محمد جمن جیسے صدا کاروں اور موسیقاروں سے گائیکی کے اسرار و رموز میں مزید پختگی اور مہارت حاصل کی۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے غلام علی سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت کے گر سیکھے۔ روبینہ قریشی کی آواز کا مدھر پن نے سندھی کافی کو بھی ایک نیا روپ دیدیا۔ انہوں نے سندھی کے علاوہ اردو‘ سرائیکی‘ پنجابی‘ بنگالی‘ بلوچی اور پشتو میں بھی نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ خود کو ہر زبان کی خوبصورتی میں منوایا۔ انہوں نے سسی پنوں‘ گھونگھٹ‘ لال کنواں اور کئی دوسری فلموں میں بھی گانے گاکر خود کو ایک زبردست پلے بیک سنگر کے طور پر منوایا۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا ۔۔اور پھر ایک طویل علالت کے بعد 13 جولائی بدھ کے روز وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ وہ بے شمار خوبیوں کی مالک فنکارہ تھیں۔ اللہ رب العزت ان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے (آمین)