روس کو یوکرین پر حملہ آور ہوئے آٹھ دن گزر چکے ہیں۔اگرچہ روس نے یوکرین کے چند علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن روس کی پیشرفت روس کی اپنی توقعات سے بہت کم ہے۔باقی دنیا کا بھی یہی خیال تھا کہ شاید روس چند دن میں نسبتاً کمزورملک پر قابض ہو جائے گا۔یوکرین کی فوج اور عوام نے جس بہادری سے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔یوکرین کے صدر ولادی میر زلنسکی جسے کامیڈین صدر سمجھا جا رہا تھا نے بڑی جرأت اور ہمت سے ملک کی قیادت کی ہے۔صدر زلنسکی کو موقع حاصل تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے ملک چھوڑ جاتے لیکن صدر نے آخری افغان صدر اشرف غنی کی پیروی کرنے کی بجائے آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر صدر زلنسکی ملک چھوڑ جاتے تو اب تک ان کی فوج بھی ہتھیار ڈال چکی ہوتی بہادر قیادت ہی ملک کا اثاثہ ہوتی ہے۔یوکرین کے سابق صدر پروشینکو حملے کے وقت ملک سے باہر تھے لیکن وہ فوراً واپس آئے اور فوجی وردی پہن کر ملک کے دفاع میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔دارالحکومت کیف کے میئر جو کہ سابق باکسراورساڑھے 6فٹ کے کڑیل جوان ہیں‘ اپنی مشین گن کے ساتھ مورچے میں کھڑے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ کسی قیمت پر دشمن کو اپنے شہر پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ہو سکتا ہے کہ یوکرین نے پہاڑ جیسی غلطیاں کی ہوں اور روس کی طاقت اور ارادے کا غلط اندازہ لگایا ہو لیکن اس قوم کی بہادری کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اگرچہ یوکرین کے دس لاکھ کے قریب لوگ ہمسایہ ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں لیکن یہ لوگ زیادہ تر خواتین بچے اور بوڑھے لوگ ہیں۔18سے 60سال تک کے مردوں کے لئے یوکرین چھوڑنا ممنوع ہے۔اٹھارہ ہزار کے قریب سویلین مردوں کو حکومت نے مسلح کیا ہے اور وہ فوج کے شانہ بشانہ اپنے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ خواتین بھی مردوں کے ساتھ لڑ رہی ہیں اور اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے پٹرول بم بنا رہی ہیں۔ان حالات میں ان کی بہادری قابل قدر ہے۔یوکرین میں پاکستان کے طلباء کی تعداد چند سو لوگوں پر مشتمل ہے۔کل پاکستانی تقریباً تین ہزار ہیں۔چند طلباء پاکستان کی ایمبیسی کی امداد کے بارے میں شاکی ہیں۔بعض طلباء نے پاکستانی سفارتخانے کی تعریف بھی کی ہے کہ وہ اس کی مدد سے یوکرین سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی ایمبیسی کل چھ نفوس پر مشتمل ہے ۔تین افسر ہیں اور تین اہلکار۔نہ ہی لاکھوں ڈالر ان کے پاس ہیں کہ وہ پاکستانیوں کی مالی امداد کھل کر سکیں۔بنک بند ہو چکے ہیں اور پورے ملک میں دھماکے ہو رہے ہیں اور جنگ جاری ہے۔ گیس سٹیشنز پر پٹرول ناپید ہے۔ان مشکل حالات میں پاکستانی سفارتخانے نے جس طرح اپنی بساط سے بڑھ کر پاکستانیوں کی مدد کی ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔بسوں کا انتظام کیا گیا ہے اور طلباء کو رومانیہ‘ پولینڈ اور دوسرے راستوں سے یوکرین سے نکالا گیا ہے۔سفارتخانے کے افسران اپنے ہاتھ سے طلباء میں راشن تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔پھر بھی بعض طلباء شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بس نے انہیں بارڈر سے دس پندرہ کلو میٹر پہلے ہی اتار دیا اور انہیں پیدل چل کر بارڈر کراس کرنا پڑا۔ ان جنگی حالات میں اتنی مدد مل جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔خود پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب سے بات کی کہ پاکستانی طلبا کو سہولیات فراہم کی جائیں۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایمبیسی کے زیر کمان کوئی یونٹ یا بریگیڈ نہیں ہے کہ طلباء کو اپنی گاڑیوں میں وہاں سے نکال سکیں۔تاہم ان مشکل حالات میں سفارتی افسروں اور اہلکاروں نے پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کی ہے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں لوگوں کو بارڈر تک پہنچایا ہے۔پاکستانی سفارتخانے نے تو بھارتی طلاء کو بھی امداد اور کھانا فراہم کیااور پاکستان کے لئے اچھا نام کمایا ہے۔ کسی بھی جنگ کا پہلا شکار ’’سچائی‘‘ ہوتی ہے۔اس جنگ میں بھی متحارب فریق ایک دوسرے کے بارے میں متضاد دعوے کر رہے ہیں۔یوکرین کا دعویٰ ہے انہوں نے روس کے 5000فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور بیسیوں ٹینک اور جہاز تباہ کر دیے ہیں جو شاید درست نہ ہو۔لیکن روس کا کافی زیادہ نقصان ہوا ہے اور اسی لئے ان کی پیشقدمی اندازوں سے کافی کم ہے۔60کلو میٹر لمبا آرمرڈ گاڑیوں کا قافلہ کئی دن سے کیف کی طرف رواں دواں ہے لیکن ابھی تک وہاں پہنچ نہیں سکا۔ روس کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ وہ سول نقصانات کم سے کم رکھنا چاہتا ہے اور یوکرینی فوج ہی ان کا اصل ہدف ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چرنوبل کا مشہور زمانہ ایٹمی ری ایکٹر بھی حملوں کی زد میں ہے اور یوکرین کے صدر یہ دعویٰ کر رہے ہیں اگر اس ری ایکٹر میں دھماکہ ہوا تو پورا یورپ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔روس پہلے ہی اپنی ایٹمی افواج کو الرٹ کی بلند ترین سطح پر تیار رہنے کا حکم جاری کر چکا ہے۔یورپی ممالک اور امریکہ روس پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگا رہے ہیں اور روس کا رابطہ امریکہ اور یورپ سے تقریباً مکمل کٹ چکا ہے۔روس نے بھی امریکہ اور یورپ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان پابندیوں سے زیادہ کون سا فریق متاثر ہوتا ہے۔جرمنی کی گیس پائپ لائن پر کام بند ہو چکا ہے اور تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں 117ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں اس کا اثر ساری دنیا پر ہو گا اور یورپی ممالک تو روس کی گیس اور تیل کے سب سے بڑے خریدار تھے۔جرمنی خاص طور پر ناخوش ہے۔ اگرچہ ہر جنگ کا انجام تو مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے لیکن ابھی تک ہونے والے مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔پوٹن کے لئے بھی نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہے۔امریکہ اور یورپ بھی بے بس نظر آتے ہیں۔سکیورٹی کونسل میں روس کے ویٹو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یونائٹڈ نیشنز بڑی طاقتوں کے سامنے بے بس ہے۔جنرل اسمبلی میں 141ووٹ روس کے خلاف آئے ہیں‘پانچ اس کے حق میں اور 35ممالک نے ووٹ نہیں دیا ‘جس میںپاکستان اور چین بھی شامل ہے۔چین نے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔پاکستانی مندوب کا بیان نہایت متوازن ہے جس میں سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنے کا کہا گیا ہے اور آزاد ممالک کی سالمیت کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ نسبتاً آزاد خارجہ پالیسی کے راستے پر گامزن ہے۔ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو اس پالیسی کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔کاش ہمارے سیاستدان اس کی اہمیت کو سمجھیں اور بڑی طاقتوں کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیں۔